Tuesday 29 March 2016

Online Learn Quran for Kids



                                                          Learn Quran Kids
‘Learn Quran Kids’ is an online Quran teaching institute, offering online Quran classes to teach you and your kids the “Correct way of reading Quran” in their comfort of their own homes using the latest communication technologies like Skype etc. We have a dedicated and knowledgeable staff which are handpicked, trustworthy and feel their responsibility to teach not only Quran but the correct way of reading Quran. Our online Quran classes is for any one of any age. Our beloved last Prophet (ﷺ) said:

‏خيركم من تعلم القرآن وعلمه‏

“The best among you (Muslims) are those who learn the Quran and teach it”   (Al-Bukhari)
Why Learn Quran?
It is the duty of all Muslims to live their life under the teachings of Quran and Sunnah. If done, the rewards are BIG:

اقرءوا القرآن فإنه يأتي يوم القيامة شفيعًا لأصحاب

“Read the Quran, for it will come as an intercessor for its reciters on the Day of Resurrection”
(Al-Muslim)

The first step in accomplishing this is to learn to read Quran in the right way.  At ‘Learn Quran Kids’ we focus not only reading but on the correct reading of Quran which is called in Arabic as ‘Tajweed‘.
Are we the best place for Kids, Quran reciting?
The best place to learn Quran is always the local Masjid. Because kids can learn Islam and also build bonds with other kids. This creates happy memories and therefore help retention of the Islamic knowledge gained. In my opinion this is far more important than simple learning. Our aim is to help understand PRACTICAL ISLAM - that is knowledge that can be put into practice. 

I believe that we should gain knowledge (ILM) with the intention of doing (AMAL). It is these deeds which ALLAH counts. We need the knowledge to make sure we are doing the deeds within the rules which ALLAH has given through the prophet Mohammed (saw). This is the sunnat. Once we gain knowledge then we have a duty to pass that good knowledge to others both through teachings and by example.

Academy Online Courses


  • Quran Reading Education with Tajweed
  • Basic Islamic Teachings (Prayer, Dua, Etc.)
  • Memorization of Quran
  • Quran Translation Classes
  • Arabic Learning Classes
  • Urdu Learning Classes
  • Contact Us
  • Skype id  Ubaid322
  • Mobil and whatsap No +92-322-2984599

Saturday 26 March 2016

جوتےپہن کرنمازپڑھی جاسکتی ھے.....





جوتےپہن کرنمازپڑھی جاسکتی ھے.....
جس کونہیں معلوم وہ جان جائے.....
پر جوتے صاف ہونے چاہیئیں.....
یہود کی مخالفت کرو.....
حدیث شیئر کریں ،جزاک اللہ خیر !!
آفریدی نے گراونڈ میں جوتوں کے ساتھ نماز پڑھی
جس پر جاہل لوگ فتوے دے رہے ہیں " 
جن کی ٹانگیں نکاح کے وقت اس لئے کانپ رہی ہوتی کہ مولوی صاحب کہیں چھ کلمے نہ سن لیں 
اور یہاں منہ پھاڑ کے فتوے دینگے 
حدیث میں ثابت ہے جوتے صاف ہوتو نماز ہو جاتی ہےجوتے پہن کر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔جس کے دلائل یہ ہیں:
1۔حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا:
(صحیح ابوداود:۶۰۷)
’’یہود کی مخالفت کرو پس بے شک وہ جوتوں اور موزوں میں نما زنہیں پڑھتے۔‘‘
2۔حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت انس سے دریافت کیا کہ:
(صحیح بخاری:۳۸۶) 
’’کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے ، کہنے لگے ہاں‘‘
ملحوظہ :
لیکن یاد رہے کہ جوتا اگر بالکل صاف ہو یعنی اس پر گندگی نہ لگی ہو تب ہی اس میں نماز ادا ہوسکتی وگرنہ جوتے پہن کر نماز درست نہیں۔
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کو نماز پڑھا رہے تھے۔ آپ نے اپنے جوتے اتار دیئے جب لوگوں نے دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار دیئے نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کس چیز نے مجبور کیا کہ تم اپنے جوتے اتارو؟
انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے دیکھا کہ آپ جوتے اتار رہے ہیں تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار دیئے آپ نے فرمایا: مجھے تو جبریل نے خبر دی کہ تمہارے جوتوں کے نیچے گندگی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(صحیح ابوداود:۶۰۵)
’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو پہلے اپنے جوتے دیکھ لے اگر ان پرگندگی وغیرہ لگی ہو تو اس کو (زمین پر) رگڑے اور ان میں نماز ادا کرے۔‘‘
لہٰذا جوتا اگر گندگی سے پاک ہو تو ان میں نماز پڑھنادرست ہے۔ تاہم آج کل مسجدوں میں قالین اور صفوں کی صفائی کے پیش نظر جوتے اتارکر نماز پڑھ لینی چاہئے آپ سے جوتے اتار کر نماز پڑھنا بھی ثابت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ :
(ایضاً:۶۰۸)
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ننگے پاؤں اور جوتے سمیت نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘.
رسول اللہﷺ نے فرمایا:''جب تم میں سے کوئی آدمی مسجد کی طرف آئے تو وہ دیکھے اگر اس کے جوتوں میں کوئی گندگی وغیرہ لگی ہو تو اسے صاف کرے اور ان میں نماز پڑھے ۔(ابو داود:٦٥٠)

Thursday 17 March 2016

Online Basic Islamic Educational Services for you


Why Quran-o-Sunnat
We provide the best experienced young teachers, male and female, who are available to assist anyone in learning online Quran and Islamic studies. With our helpful one-to-one live interactive Quran classes, we welcome students of all ages from anywhere around the globe to gain such an important study which will help them in the future and in the life hereafter, InshaAllah. We also provide with flexible timing to suit your schedule. With great trust and pride, www Quran322.blogspot.com gives everyone a chance to learn the Holy Quran and expand their knowledge of Islam.

Our Online Educational Services include:
Hifz e Quran
Noorani Qaida for beginners
Quran learning with Tajweed.
Naats
6 Kalmas
Ahadees e Qudsi
Method of Ghusal, Wudhu, Funeral and
Eid Prayers.
Memorization of various Duas and
Surahs for Nazra Students.
Basic Aqaa’id, Fiqh, Islamic
History, Sunnah, Etiquettes, Halal & Haram etc.
Any Time Any countury for 3 Days free Trail.

contact us 

cell +92322-2984599 
skypeid   ubaid322

Online Quran Teaching for your children




دو نوجوان محفل میں داخل ہوتے ہی وہاں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں "اے عمر یہ ہے وہ شخص"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں "کیا کیا ہے اس شخص نے؟"
"یا امیر المؤمنین. اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے"
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں "کیا کہہ رہے ہو .... اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ...؟"
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں "کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟"
وہ شخص کہتا ہے "ہاں امیر المؤمنین .... مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ"
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں "کس طرح قتل ہوا ہے ...؟"
وہ شخص کہتا ہے "اے عمر. انکا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ... میں نے منع کیا ... باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا ... جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا "
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "پھر تو قصاص دینا پڑے گا. موت ہے اسکی سزا ...."
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت ... نہ کسی سے مشورے کی حاجت ... اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ... نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے ... نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے ... نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں ... معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ..؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ... کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے ... حتی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ... قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا .....
وہ شخص کہتا ہے "اے امیر المؤمنین ... اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں ... مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا ... ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ... میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا "
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا ...؟"
مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے ... کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو ... اسکے قبیلے ... خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ... کون ضمانت دے اسکی ..؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ..؟ ہر گز نہیں ... ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے ... اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے ...
محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ... اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں ... کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے ...
کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا ....
خود عمر رضی اللہ عنہ بھی اس صورتحال پر سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں .... سر اٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں "معاف کر دو اس شخص کو ......"
نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجک کے سنا دیتے ہیں "نہیں امیر المؤمنین ... جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ...؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا"
عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں "اے لوگو ... ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟"
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں "میں اس شخص کی ضمانت دیتا ہوں ..."
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "ابوذر ... اس نے قتل کیا ہے ..."
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں "چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو ..."
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں "جانتے ہو اسے؟"
ابوذر رضی اللہ عنہ "نہیں جانتا"
عمر رضی اللہ عنہ "تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ...؟"
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ... انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ..."
عمر رضی اللہ عنہ "ابوذر ... دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ..."
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں "امیر المؤمنین ... پھر اللہ مالک ہے ..."
عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ... کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ... بیوی بچوں کو الوداع کہنے ... اپنے بعد ان کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے ....
اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ... انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا ... عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ... نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ... ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں ...
عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں "کدھر ہے وہ آدمی؟"
ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں "مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین ..."!
ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے ... محفل میں ہو کا عالم ہے ... اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ...؟
یہ سچ ہے کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں ... عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ... لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے .... اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ... کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ... نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ... حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے ... قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے ...
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ... بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے ... ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے .....
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں "اے شخص ... اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا ... نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ... "
وہ شخص بولا "امیر المؤمنین ... اللہ کی قسم بات آپکی نہیں ہے ... بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ... دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ... اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ... جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ... میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ... مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اٹھ گیا ہے .... "
عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا "ابوذر ... تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ...؟"
ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا "اے عمر. مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے ..."
سید عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ "کیا کہتے ہو اب ...؟"
نوجوانوں نے جن کا باپ مرا تھا روتے ہوئے کہا "اے امیر المؤمنین ... ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ... ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اٹھا لیا گیا ہے ... "
عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ......... فرمايا ...
"اے نوجوانو .... تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے ...."
"اے ابو ذر .... اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے ...."
"اور اے شخص .... اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے ...."
"اور اے امیر المؤمنین .... اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے ...
(سیرت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ)

Friday 11 March 2016

Best Online learning Quran Academy Islamabad


جنت کے بارے میں دلچسپ اور حیرت انگیز تفصیل ۔                     
اس تفصیل دینے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے دل میں اس کے حصول کا شوق پیدا ہو اور آپ اچھے اعمال سے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس فانی دنیا کو آخرت کی زندگی پر ترجیح نہ دیں۔
جنت کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ان کے اچھے اچھے اعمال کا اپنے فضل و کرم سے بدلہ اور انعام دینے کے لئے آخرت میں جو شاندار مقام تیار کررکھا ہے اُس کا نام جنت ہے اور اُسی کو بہشت بھی کہتے ہیں۔
جنت میں ہر قسم کی راحت و شادمانی و فرحت کا سامان موجو د ہے۔ سونے چاندی اور موتی و جواہرات کے لمبے چوڑے اور اُونچے اُونچے محل بنے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ ریشمی کپڑوں کے خوبصورت و نفیس خیمے لگے ہوئے ہیں۔ ہر طرف طرح طرح کے لذیذ اور دل پسند میوؤں کے گھنے، شاداب اور سایہ دار درختوں کے باغات ہیں۔ اور ان باغوں میں شیریں پانی، نفیس دودھ، عمدہ شہد اور شرابِ طہور کی نہریں جاری ہیں۔
قسم قسم کے بہترین کھانے اور طرح طرح کے پھل فروٹ صاف ستھرے اور چمکدار برتنوں میں تیار رکھے ہیں ۔ اعلیٰ درجے کے ریشمی لباس اور ستاروں سے بڑھ کر چمکتے اور جگمگاتے ہوئے سونے چاندی اور موتی و جواہرات کے زیورات ، اونچے اونچے جڑاؤ تخت ، اُن پر غالیچے اورچاندنیاں بچھی ہوئی اور مسندیں لگی ہوئی ہیں۔ عیش ونشاط کے لئے دنیاکی عورتیں اورجنت کی حوریں ہیں جوبے انتہاحسین وخوبصورت ہیں۔ خدمت کے لئے خوبصورت لڑکے چاروں طر ف دست بستہ ہر وقت حاضر ہیں الغرض جنت میں ہر قسم کی بے شمار راحتیں اور نعمتیں تیار ہیں۔ اور جنت کی ہر نعمت اتنی بے نظیر اور اس قدر بے مثال ہے کہ نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا ،نہ کسی کان نے سنا ،نہ کسی کے دل میں اس کا خیال گزرا۔ جنّتی لوگ بِلا روک ٹوک اُن تمام نعمتوں اور لذتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور ان تمام نعمتوں سے بڑھ کر جنت میں سب سے بڑی یہ نعمت ملے گی کہ جنت میں جنتیوں کوخداوندقدوس عزوجل کادیدارنصیب ہوگا۔جنت میں نہ نیندآئے گی نہ کوئی مرض ہوگانہ بڑھاپاآئے گانہ موت ہوگی۔جنتی ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور ہمیشہ تندرست اور جوان ہی رہیں گے۔
اہلِ جنت خوب کھائیں پئیں گے مگرنہ ان کوپیشاب پاخانہ کی حاجت ہوگی نہ وہ تھوکیں گے نہ ان کی ناک بہے گی۔ بس ایک ڈکار آئے گی اور مُشک سے زیادہ خوشبو دار پسینہ بہے گا اور کھانا پینا ہضم ہوجائے گا۔ جنتی ہر قسم کی فکروں سے آزاد اور رنج و غم کی زحمتوں سے محفوظ رہیں گے۔ ہمیشہ ہر دم اور ہر قدم پر شادمانی اور مسرت کی فضاؤں میں شادو آباد رہیں گے اور قسم قسم کی نعمتوں اور طرح طرح کی لذتوں سے لطف اندوزو محظوظ ہوتے رہیں گے۔ (خلاصہ قرآن و حدیث)
جنت کہاں ہے؟
زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ جنت ساتویں آسمان کے اوپر ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے کہ
عِنۡدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی ﴿۱۴﴾عِنۡدَہَا جَنَّۃُ الْمَاۡوٰی ﴿ؕ۱۵﴾
(پ۲۷،النجم:۱۴،۱۵)
یعنی سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہی جنت الماویٰ ہے۔
اور ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ جنت کی چھت عرش پر ہے۔
شرح المقاصد،المبحث الخامس،الجنۃ والنار...الخ،ج۳،ص۳۶۱
(حاشیہ شرح عقائد نسفیہ،ص۸۰)
جنتیں کتنی ہیں؟
جنتوں کی تعداد آٹھ ہے جن کے نام یہ ہیں۔
(۱)دارالجلال (۲) دارالقرار (۳) دارالسلام (۴) جنۃ عدن
(۵)جنۃ الماویٰ (۶)جنۃ الخلد (۷)جنۃ الفردوس(۸)جنۃ النعیم(1)
(تفسیر روح البیان،ج۱،ص۸۲)
جنت کی منزلیں
حدیث شریف میں ہے کہ جنت کے سو درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان ایک سو برس کی راہ ہے۔(مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۹۷)
اور ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جنتی لوگ جنت کے بالا خانوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم لوگ زمین سے مشرق یا مغرب میں چمکنے والے تاروں کو دیکھا کرتے ہو۔(مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۹۶)
جنت کے پھاٹک
حدیث شریف میں ہے کہ جنت کے پھاٹک اتنے بڑے بڑے ہیں کہ اس کے دونوں بازوؤں کے درمیان چالیس برس کا راستہ ہے مگر جب جنتی جنت میں داخل ہونے لگیں گے تو ان پھاٹکوں پر ہجوم کی کثرت سے تنگی محسوس ہونے لگے گی۔
(مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۹۷)
جنت کے باغات
جنت کے باغوں کے بارے میں حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مؤمن جب جنت میں داخل ہوگا تو وہ ستر ہزار ایسے باغات دیکھے گا کہ ہر باغ میں ستر ہزار درخت ہوں گے اور ہر درخت پر ستر ہزار پتے ہوں گے اور ہر پتے پر یہ لکھا ہوگا: لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ اُمَّۃٌ مُّذْنِبَۃٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ اور ہر پتے کی چوڑائی مشرق سے مغرب تک کے برابر ہوگی۔ (روح البیان،ج۱،ص۸۲)
اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے تمام درختوں کے تنے سونے کے ہیں۔(مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۹۷)
جنت کی عمارتیں
جنت کی عمارتوں میں ایک اینٹ سونے کی اورایک اینٹ چاندی کی ہے اوراس کاگارا نہایت ہی خوشبو دار مشک ہے اور اس کی کنکریاں موتی اور یاقوت ہیں اور اس کی دھول زعفران ہے۔ (مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۹۷)
اور یہ بھی مروی ہے کہ بعض عمارتیں نُور کی اور بعض یاقوت سُرخ کی اور بعض زمرد کی ہیں۔ (روح البیان،ج۱،ص۸۲)
جنت کی نہریں اور حوضِ کوثر
جنت میں شیریں پانی، شہد ، دودھ اور شراب کی نہریں بہتی ہیں۔ (مشکوٰۃ،ج۲،ص۵۰۰)
جب جنتی پانی کی نہر میں سے پئیں گے تو انہیں ایسی حیات ملے گی کہ پھر انہیں موت نہ آئے گی اور جب دودھ کی نہر میں سے نوش کریں گے تو ان کے بدن میں ایسی فربہی پیدا ہوگی کہ پھر کبھی لاغر نہ ہوں گے اور جب شہد کی نہر میں سے پی لیں گے تو انہیں ایسی صحت وتندرستی مل جائے گی کہ پھر کبھی وہ بیمار نہ ہوں گے اور جب شراب کی نہر میں سے پلائے جائیں گے تو انہیں ایسا نشاط اور خوشی کا سرور حاصل ہوگا کہ پھر کبھی وہ غمگین نہ ہوں گے۔(روح البیان،ج۱،ص۸۲)
یہ چاروں نہریں ایک حوض میں گررہی ہیں جس کا نام''حوضِ کوثر'' ہے یہی حوض حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا وہ حوضِ کوثر ہے جو ابھی جنت کے اندر ہے لیکن قیامت کے دن میدانِ محشر میں لایا جائے گا،جہاں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اس حوض سے اپنی اُمت کو سیراب فرمائیں گے۔(روح البیان،ج۱،ص۸۳)
جنت کے چشمے
اِن چاروں نہروں کے علاوہ جنت میں دوسرے چشمے بھی ہیں جن کے نام یہ ہیں:(۱)کافور (۲)زنجبیل (۳)سلسبیل (۴) رحیق (۵)تسنیم۔ (روح البیان،ج۱،ص۸۳)
اہلِ جنت کی عمریں
ہر جنتی خواہ بچپن میں مرا ہو یا بوڑھا ہو کر وفات پائی ہو، ہمیشہ جنت میں اُس کی عمر تیس ہی برس کی رہے گی اس سے زیادہ کبھی اس کی عمر نہیں بڑھے گی۔ اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح جوان رہتے ہوئے آرام و راحت کی زندگی بسر کرتا رہے گا۔ (ترمذی،ج۲،ص۸۰)
جنتیوں کی بیویاں اور خُدّام
ادنیٰ درجے کے جنتی کو اسّی ۸۰ہزار خادم اور بہتّر۷۲ بیویاں ملیں گی اوراس کے لئے موتی اورزبرجدویاقوت کااِتنالمباچوڑاخیمہ گاڑاجائے گاجتناکہ جابیہ اور صنعاء کے دوشہروں کے درمیان فاصلہ ہے۔(ترمذی،ج۲،ص۸۰)
حوروں کا جلسہ اور گانا
جنت میں حوروں کا جلسہ ہوگا جس میں حوریں اس مضمون کا گانا سنائیں گی کہ ''ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں تو ہم کبھی فنا نہ ہوں گی۔ ہم چین میں رہنے والیاں ہیں تو ہم کبھی غمگین نہیں ہوں گی۔ہم خوش ہونے والیاں ہیں توہم کبھی ناراض نہ ہواکریں گی۔ مبارک باد ہے ان کے لئے جوہمارے لئے ہوں اور ہم اُن کے لئے ہوں۔'' (ترمذی،ج۲،ص۸۰)
جنت کے بازار
ہر جمعہ کے دن جنت میں ایک بازار لگے گا کہ اُس میں شمالی ہوا چلے گی جو جنتیوں کے چہروں اور کپڑوں پرلگے گی تو اُن کے حسن و جمال میں نکھار پیدا ہو کر وہ بہت زیادہ خوبصورت ہوجائیں گے اور جب وہ بازار سے پلٹ کر اپنے گھر جائیں گے تو اُن کے گھر والے کہیں گے کہ تم تو خداکی قسم!حسن و جمال میں بہت بڑھ گئے ہو۔ تو یہ لوگ کہیں گے کہ ہمارے پیچھے تم لوگوں کا حسن و جمال بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ (مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۹۶)
جنت میں خداعزوجل کا دیدار
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے توخدا عزوجل کاایک منادی یہ اعلان کریگاکہ اے اہلِ جنت!ابھی تمہارے لئے اللہ عزوجل کا ایک اور وعدہ بھی ہے۔ تو اہلِ جنت کہیں گے کہ اللہ عزوجل نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کردیاہے!کیا اللہ عزوجل نے ہم کو جہنم سے نجات دے کر جنت میں نہیں داخل کردیا ہے؟ تومنادی جواب دے گا کہ کیوں نہیں!پھر ایک
دم خداوند قدوس عزوجل اپنے حجاب اقدس کو دور فرمادے گا (اور جنتی لوگ خدا عزوجل کا دیدار کرلیں گے)تو جنتیوں کو اس سے زیادہ جنت کی کوئی نعمت پیاری نہ ہوگی۔
(ترمذی،ج۲،ص۷۸)
اسی طرح بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے ۔ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے تو حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے چودھویں رات کو چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ تم لوگ عنقریب (قیامت کے دن)اپنے رب عزوجل کو دیکھو گے جس طرح تم لوگ چاند کو دیکھ رہے ہو۔(یعنی جس طرح چاند کو دیکھنے میں کوئی کسی کے لئے حجاب اور آڑ نہیں بنتا اِسی طرح تم لوگ اپنے رب عزوجل کو دیکھو گے)تو اگر تم لوگوں سے ہوسکے تو نماز فجر و نمازعصر کبھی نہ چھوڑو۔(مشکوٰۃ،ج۲،ص۵۰۰)
اے اللہ ہمیں معاف فرما اور ہمیں جنت الفردوس عطاء فرما۔ آمین