Sunday, 24 September 2017

نواسہ رسول جگر گوشہ بتول سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل



نواسہ رسول جگر گوشہ بتول سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل
نواسئہ رسول سیدنا حضرت حسین ؓ وہ عظیم ہستی ہیں کہ جن کے فضائل و مناقب، سیرت و کردار اور کارناموں سے تاریخ اسلام کے صفحات روشن ہیں۔ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خاندانِ نبوت ، فاتح خیبر سیدنا حضرت علی المرتضیؓ کے گھر میں آنکھ کھولی۔ آپ کے نانا ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کان میں بنفس نفیس آذان دی۔ اپنے پاکیزہ اور مبارک ہاتھوں سے شہد چٹایا۔ اپنا لعاب مبارک آپ کے منہ میں داخل فرمایا دعائیں دیں اور حسین نام رکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپکی والدہ ماجدہ، اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی لخت جگر، خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمة الزہراہ کو ”عقیقہ“ کرنے اورسر کے بالوں کے برابر چاندی خیرات کرنے کی تلقین فرمائی۔
سیدنا حضرت حسینؓ نے اپنے نانا حضور اکرم سے بے پناہ شفقت و محبت کو سمیٹا اور سیدنا حضرت علی المرتضیؓ کی آغوش محبت میں تربیت و پرورش پائی۔ جس کی وجہ سے آپ فضل و کمال، زہد و تقویٰ، شجاعت و بہادری، سخاوت، رحمدلی، اعلیٰ اخلاق اور دیگر محاسن و خوبیوں کے بلند درجہ پر فائز تھے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے بہت زیادہ محبت تھی آپ حضرت حسین ؓ کو گود میں اٹھاتے ، سینہ مبارک پر کھلاتے، کاندھے پر بٹھاتے اور کبھی ہونٹوں پر بوسہ دیتے اور رخسار چومتے
آپ کے والد مکرم خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضیؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت حسن ؓسینہ سے لے کر سر مبارک تک حضور اکرم کے مشابہ تھے اور سیدنا حضرت حسین ؓ قدموں سے لے کر سینہ تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے اور آپ کے حسن و جمال کی عکاسی کرتے تھے
حضرت ابو ایوب انصاری ؓفرماتے ہیں کہ میں ایک روز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حسنین کریمین حضور اقدس کے سینہ مبارک پر کھیل رہے ہیں! میں نے عرض کیا؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ ان دونوں سے اس درجہ محبت فرماتے ہیں؟ آپ ے جواب میں فرمایا کیوں نہیں یہ دونوں دنیا میں میرے پھول ہیں۔
ایک موقعہ پر حضور اقدس نے حسنین کریمین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا (ابن ماجہ) ایک مرتبہ حضور اکرم نے سیدنا حضرت حسینؓ کے رونے کی آواز سنی تو آپ نے خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمة الزھراء سے فرمایا کہ تم کو معلوم نہیں کہ ان کا رونا مجھے غمگین کرتا ہے
حضرت حسینؓکی ذات مبارکہ تمام صحابہ کرام کے لئے انتہائی عقیدت و احترام او رمحبت و تکریم کا مرکز تھی یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کے 57برس مدینہ منورہ میں عام صحابہ کرام اور ان کی اولادوں کے درمیان بسر فرمائے یہاں کا ہر مسلمان آپ سے محبت کرتا اور آپ کا دل و جان سے جانثار تھا آپ نے اپنی زندگی کے ان 57 برسوں مین انہی لوگوں کے ساتھ نمازیں ادا کیں انہیں لوگوں کے ساتھ مل کر جہاد و قتال کیا۔ انہی لوگوں کے ساتھ اپنا اٹھنا بیٹھنا رکھا اور احکامِ اسلام کی تعمیل و تکمیل کی
شہید کربلا سیدنا حضرت حسینؓ کے زہدو تقویٰ اور عبادت گزاری کی یہ حالت تھی کہ آپ ؓ شبِ زندہ دار اور سوائے ایام ممنوعہ کے ہمیشہ روزہ سے ہوتے۔ قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے فرماتے اور حج بھی بکثرت کرتے ایک روایت کے مطابق آپ نے پچیس حج پیدل فرمائے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی مجالس وقار و متانت کا حسین مرقع اور آپ کی گفتگو علم و حکمت اور فصاحت و بلاغت سے بھرپور ہوتی۔ لوگ آپ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اوران کے سامنے ایسے سکون اور خاموشی سے بیٹھتے تھے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں
آپ رضی اللہ عنہ بہت زیادہ حلیم الطبع اور منکسر المزاج تھے، مالی حیثیت میں کمزور لوگوں سے سے بھی خندہ پیشانی سے ملتے تھے بعض مرتبہ آپ ر ضی اللہ عنہ غرباءکے گھروں پر خود کھانا پہنچاتے تھے اگر کسی قرض دار کی سقیم حالت کا پتہ چلتا تو خود اس کا قرض ادا کر دیتے تھے
حضرت حسنین کریمین میں سے کوئی بیت اللہ کے طواف کے لئے نکلتا تو آپ کو سلام و مصافحہ کے لئے لوگ اس طرح پروانہ وار ٹوٹ کر گرتے کہ ڈرلگتا کہ کہیں ان کو تکلیف و صدمہ نہ پہنچے ایک موقع پر حضور اکرم نے ارشاد فرمایا کہ حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسین ؓ سے ہوں جو حسینؓ سے محبت کرے اللہ تعالیٰ اس سے محبت کریں گے، حسین میری اولاد کی اولاد ہے۔ (ترمذی)
خلیفئہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ ، سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ اور سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین ؓ سمیت تمام صحابہ کرام کو بھی حسنین کریمین اور خاندانِ نبوت سے بہت زیادہ عقیدت و محبت اور اُلفت تھی
سیدنا حضرت حسین جب بچپن میں پہلی مرتبہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق کے سامنے آئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے بے اختیار عقیدت و محبت میں فرمایا کہ ”بیٹا علیؓ کا ہے مشابہ نبی اکرم کے ہے“
سیدنا حضرت ابوبکر صدیق کے دورِ خلافت میں جب حضرت خالد بن ولیدکے ہاتھوں ”حیرہ“ علاقہ فتح ہوا تو مالِ غنیمت میں سے ایک نہایت ہی قیمتی چادر حضرت ابوبکر صدیق ؓے سیدنا حضرت حسین ؓ کی خدمت میں بطور ”ہدیہ“ بھیجی جو حضرت حسین ؓ نے بخوشی قبول فرمائی
خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ”بدری صحابہ کرامؓ “کے وظائف سب سے زیادہ یعنی پانچ ہزار دہم سالانہ مقرر کیے تھے اور حضرت عمر فاروق ؓ نے حسنین کریمین کے وظائف بھی بدری صحابہ کرام کے برابر ہی مقرر فرمائے حضرت عمر فاروق ؓ اپنے حقیقی بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر سے بھی زیادہ محبت حسنین کریمین سے کرتے تھے، ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق کے دورِ خلافت میں یمن سے کچھ پوشاکیں آئیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس میں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے موافق اور شان کے مطابق کوئی پوشاک نہ ملی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خصوصی طور پر یمن کے علاقہ کے طرف آدمی بھیج کر مناسب لباس منگوایا جس کو حسنین کریمین رضی اللہ عنہما نے زیبِ تن کیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دیکھ کر فرمایا! اب میری طبیعت خوش ہوئی ہے
اسی طرح خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی حسنین کریمین رضی اللہ عنہما اور خاندانِ نبوت سے عقیدت و محبت ، آپس میں رشتہ داری اور اُلفت و تعلق کے بہت زیادہ واقعات تاریخ کے روشن صفحات پر محفوظ ہیں سیدنا حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت مین جب بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا تو جنتی نوجوانوں کے سردار حسنین کریمین رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد سیدنا حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے حکم سے سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے گھر کا پہرہ دے رہے تھے
خاندانِ نبوت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اسلام کی دو روشن آنکھیں ہیں اور ان دونوں سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مقدس شخصیات کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
جاری ہے اگلے مضمون میں واقعہ کربلا ۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment