آج کا درس حدیث اور تشریخ
آپ کی کھیتی آپ کا مستقبل آپ کی اولاد آپ کا سکون
ہم سب بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں ان کی چھوٹی چھوٹی باتیں ہماری زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھر دیتی ہیں ابھی وہ دنیا میں قدم ہی رکھتے ہیں اور ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہم ان کی ضرورت سے لے کر آرام و آسائش تک جو ہمارے بس میں ہو انھیں دیں مگر کیا ہم نے یہ سوچا کہ ہماری سب سے ضروری کوشش بحثیت مسلمان یہ ہونی چاہیے کہ ہم انھیں کامل مسلمان بنائیں ان کی تربیت اسلامی انداز و اطوار سے کریں ہم انھیں بہترین انگلش سکولوں میں داخل تو کرواتے ہیں یہ اچھی بات ہے ہونا بھی ایسے چاہئے لیکن لیکن ساتھ ساتھ انھیں بہترین انداز میں قرآن و حدیث کی تعلیمات سے آگاہ نہیں کرواتے. ان کا معمولی رونا بھی ہم سے برداشت نہیں ہوتا اور فورا انکی خواہش کے مطابق کھلونا اور آءسکریم وغیرہ انھیں دے دیتے ہیں ہمارے بچے, بھتیجے بھتیجیاں فرفر انگلش بولیں, کسی گانے پر ڈانس کریں یا کوئی گانے کے بول ہی کیوں نہ اپنی توتلی زبان میں سنائیں ہم ہر جانے والے کے سامنے اسے دہرانے کو کہتے ہیں لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بچے سب سے پہلا لفظ اللہ بولیں سب سے پہلا سبق قرآنی قاعدہ یاد کریں
کیا ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ عربی سکیں وہ ڈانس گانوں سے دور رہیں اور کیا ہم ان کی تربیت کرتے وقت اس بات کےلیے فکر کرتے ہیں کہ وہ جھوٹ، غیبت چغلی وغیرہ سے بچیں نہیں بلکہ جانے انجانے ہم خود انھیں وہ سب سکھا رہے ہوتے ہیں جو اسلام کے منافی ہے مثال دروازے پر دستک کے جواب میں ہم اپنے بچوں کو کہلوا دیتے ہیں کہ کہہ دو ابو گھر پر نہیں ہیں بچے نے ہوم ورک نہ کیا ہو اور وہ سکول نہ جانے کی ضد کرے تو خود جھوٹا نوٹ لکھ کر ہاتھ میں دے دیتے ہیں کہ کل بیماری کی وجہ سے کام نہیں کیا یا کہہ دیتے ہیں کہ کہنا مس مہمان آ گئے تھے. بچوں کے جیومیٹری بکس میں کسی اور کی پینسل دیکھ کر بھی نہیں پوچھتے کہ کس کی ہے نہ لوٹانے کی نصیحت کرتے ہیں نہ معذرت کرنے کو کہتے ہیں....... ہماری چھوٹی چھوٹی لاپرواہی انھیں کن بڑے بڑے بہانوں جھوٹ اور غلط عادات کا عادی بناتی ہیں یہ سوچنے کا ہمارے پاس وقت ہی کہاں اکثر والدین پھر اولاد کی نافرمانی کے شکوے کرتے ہیں روتے ہیں صاحب یہ آپ کا ہی لگایا ہو ا پودا ہے یہ وہی کیتھی ہے جس کی آب یاری میں آپ کی عکاسی ہے اب کیوں روتے ہو اسے سکول کے ساتھ ساتھ دین سکھاتے قرآن پڑھاتے آداب اخترام کی تعلیم دیتے اب رونے کے سوا کچھ نہیں کام آئے گا اللہ معافی کتنی اولادوں کو دیکھا کہ بڑے ہو کر اپنے
والدین کو گھروں سے نکال دیا کہ یہ بوڑھے ہمارے بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز کے لئے رکاوٹ ہیں
والدین کے لئے نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے. اہل علم حضرات نے اس کی دلیل بھی پیش کی ہے
إن الله ليرفع الدرجة للعبد الصالح في الجنة : فيقول : يا رب أنى لي هذه ؟ فيقول: باستغفار ولدك لك
الراوي: أبو هريرة المحدث: ابن كثير - المصدر: نهاية البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 2/340
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح وله شاهد في صحيح مسلم
جس کا مطلب ہے کہ اللہ ایک شخص کا جنت میں درجے بلند کرتاہے تو وہ اللہ سے اس کا سبب پوچھتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیری اولاد کی تیرے لیے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے (مسند احمد)
نیک اولاد ہے جو دنیا میں اپنے والدین کے لیے راحتِ جان اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان بنتی ہے۔ نیک اولاد بچپن میں اپنے والدین کے لیے دل کا سرور، جوانی میں آنکھوں کا نور اور والدین کے بوڑھے ہوجانے پر ان کا سہارا بنتی ہے۔ پھر جب یہ والدین دنیا سے گزر جاتے ہیں تو یہ سعادت مند اولاد اپنے والدین کے لیے بخشش کا سامان بنتی ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین کاموں کہ ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے، صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔‘‘ (مسلم)
وہی اولاد اخروی طور پر نفع بخش ثابت ہوگی جو نیک اور صالح ہو اور یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اولاد نیک یا بد بنانے میں والدین کی تربیت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں اخلاقی قدروں کی پامالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ نیکیاں کرنا بے حد دشوار اور ارتکاب گناہ بہت آسان ہو چکا ہے۔ تکمیل ضروریات اور حصولِ سہولیات کی جدوجہد نے انسان کو فکرِ آخرت سے یک سر غافل کردیا ہے۔ ان نامساعد حالات کا ایک بڑا سبب والدین کا اپنی اولاد کی تربیت سے یک سر غافل ہونا ہے کیوں کہ فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ بنتا ہے تو جب فرد کی تربیت صحیح خطوط پر نہیں ہوگی تو اس کے مجموعے سے تشکیل پانے والا معاشرہ زبوں حالی سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔
جب والدین کا مقصدِ حیات حصولِ دولت، آرام طلبی، وقت گزاری اور عیش کرنا بن جائے تو وہ اپنی اولاد کی کیا تربیت کریں گے اور جب تربیت اولاد سے لاپروائی کے اثرات سامنے آتے ہیں تو والدین ہرکس و ناکس کے سامنے اپنی اولاد کے بگڑنے کا رونا روتے ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی ذمے داری ایک دوسرے پر عاید کرکے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں مگر یاد رکھیے اولاد کی تربیت صرف ماں یا محض باپ کی نہیں بل کہ دونوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر سخت طاقت ور فرشتے مقرر ہیں جو اﷲ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں۔‘‘ (سورہ تحریم)
جب نبی کریم ﷺ نے یہ آیت مبارکہ صحابہ کرامؓ کے سامنے تلاوت فرمائی تو وہ عرض گزار ہوئے! یا رسول اﷲ ﷺ ہم اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ سرکار ِمدینہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا! تم اپنے اہل و عیال کو ان چیزوں کا حکم دو جو اﷲ تعالیٰ کو محبوب ہیں اور ان کاموں سے روکو جو رب تعالیٰ کو ناپسند ہیں۔ (الدرالمنشور)
وقت گزر جاتا ہے اور پچھتاوا رہ جاتا ہے کیونکہ جو اللہ اور اس کے حبیب صل اللہ علیہ وسلم کا نہیں وہ کسی انسان کا کیا ہوگا پھر چاہے وہ جان چھڑکنے والے ماں باپ ہوں یا پیار کرنے والے بہن بھائی. سوچیے اس سے قبل کے دیر ہو جائے اور ہماری اولادیں دنیا و آخرت میں وبال اور باعث گرفت بن جائیں
تحریر
سید عبیداللہ شاہ اسلام آباد
Online Quran Tutor
skype id ubaid322
whatsapp . viber No +92-322-298-4599
This is really interesting, you’re a very skilled blogger. It's very helpful content with us. I like your post very much.
ReplyDeletehttps://faizanquranacademy.com/our-courses/
online quran classes with tajweed