Thursday, 24 August 2017

قربانی کے احکام و مسائل



ثبوت قربانی:
القرآن : فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانحَر۔ (سورۃ الکوثر:2)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا نما زپڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے.
القرآن: وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلنا مَنسَكًا لِيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعٰمِ۔ (سورۃ الحج:34)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کردی تاکہ اللہ نے جو چوپائے انہیں دیے ہیں ان پر اللہ کا نام لیا کریں۔
القرآن:’’اور ہم نے ہر ایک اُمت کیلئے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کر دیا ہے تاکہ جو مویشی اللہ نے اُن کو دئیے ہیں (اُن کے ذبح کرنے کے وقت) اُن پر اللہ کا نام لیں،پس تمہارا معبود ایک ہی ہے ،اُسی کے فرمانبردار رہو اور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں اور (جب) ان پر مصیبت پڑتی ہے تو صبر کرتے ہیں اور نماز (اہتمام اورپابندی سے) پڑھتے ہیں اور جو (مال) ہم نے ان کو عطا کیا ہے اُس میں سے (نیک کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔ قربانی کے اونٹوں کو بھی ہم نے تمہارے لئے اللہ کے شعائر مقرر کیا ہے، اس میں تمہارے لئے فائدے ہیں تو (قربانی کرنے کے وقت) قطار باندھ کر اُن پر اللہ کا نام لو۔پھر جب وہ پہلو کے بل گر پڑیں تو اُن میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔اس طرح ہم نے اُن جانوروںکو تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔اللہ تک نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اُس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ اسی طرح اللہ نے اُن کو تمہارے ماتحت کر دیا ہے تاکہ اس بات کے بدلے کہ اُس نے تمہیں ہدایت بخشی ہے۔ اُ س کی بڑائی بیان کرو اور (اے پیغمبر!) نیکوکاروں کو خوشخبری سنا دیجیے۔‘‘(سورۃ الحج ،آیات ۳۴تا۳۷)
قربانی کے ضروری مسائل
مسئلہ: قربانی ہر اس مسلمان ( مرد ہو یا عورت) پر واجب ہے جو عاقل، بالغ ، مقیم اور صاحب نصاب ہو ،صاحب نصاب سے مراد وہ ثخص ہے جو ساڑھے سات تولہ (87.479 گرام) سونا یا ساڑھے باون تولہ (612.35 گرام) چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت نقد کی شکل میں جو آج کی مارکیٹ میں آٹھ سو روپے پر تولہ ہے اس حساب سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت 42000روپے ہوئی یا اس کے برابر سامان تجارت کا مالک ہو ، یہ سونا ، چاندی، نقد روپیہ اور سامان تجارت کھانے پینے کا سامان ، استعمال کے کپڑے ، سواری ، رہائش کا مکان، صنعتی آلات، مشینین اور دیگر ضروریات کے علاوہ ہو ۔مسئلہ: قربانی کے نصاب پر سال کا گزرنا ضروری نہیں ، بلکہ قربانی کے دنوں میں جس وقت بھی نصاب ملک میں آجائے تو قربانی واجب ہو گی ۔مسئلہ: نابالغ اور پاگل پر قربانی واجب نہیں، اسی طرح وہ مسافر جو سوا ستتر کلو میر (77.248512) کی مسافت کے ارادہ سے سفر میں ہے اس پر قربانی واجب نہیں۔ مسئلہ: قربانی کے دنوں میں اگر مکہ مکرمہ میں حاجی مقیم اور صاحب نصاب ہو تو اس پر بھی عیدالاضحی کی قربانی واجب ہو گی ۔ واضح رہے کہ یہ قربانی دمِ شکر کی قربانی سے الگ ہے۔مسئلہ: مردوں پر جس طرح قربانی واجب ہے اسی طرح عورتوں پر بھی مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ قربانی لازم ہے ۔ چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔ مسئلہ: جو شخص صاحب نصاب نہیں ، اس پر قربانی واجب نہیں۔ مسئلہ: سونا، چاندی، نقد اور سامان تجارت کے علاوہ ضرورت سے زائد سامان کی قیمت بھی لگائی جائے گی ، یعنی کسی کے پاس ضرورت سے زائد سامان موجود ہے اور سال بھر وہ استعمال میں نہیں آتا اگر اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو اس پر قربانی واجب ہو گی۔ مسئلہ: اگر باپ اور بیٹوں کی ملکتییں الگ الگ ہوں او رہر ایک صاحب نصاب ہو تو ان میں سے ہر ایک پر قربانی واجب ہے او راگر باپ بیٹے اکھٹے رہتے ہوں ، ملکیتیں الگ الگ نہ ہوں اور بیٹوں کا مستقل کاروبار بھی نہیں اور ان کے پاس بقدر نصاب رقم بھی نہ ہو تو بیٹوں پر قربانی واجب نہیں ۔ مسئلہ: میاں بیوی کی ملکیتیں الگ شمار ہوں گی ، لہٰذا دونوں صاحب نصاب ہوں تو ہر ایک پر مستقل قربانی لازم ہے اگر دونوں صاحب نصاب نہیں لیکن دونوں کی مجموعی ملکیتیں نصاب کے برابر ہوں تو ان پر قربانی واجب نہیں۔ اگر ایک صاحب نصاب ہو ( مثلاً شوہر کاروبار کی وجہ سے یا بیوی زیورات کے مالک ہونے کی وجہ سے) تو صرف اس پر قربانی لازم ہے ،دوسرے پر نہیں۔ نیز جو قرض شوہر پر لازم ہو بیوی کو اپنے نصاب سے یا بیوی مقروض ہو تو شوہر کو اپنے نصاب سے ان کو منہا کرنا جائز نہیں ۔
قربانی کے جانور اور ان کی عمریں
مسئلہ: گائے، بیل، بھینس، اونٹ ، اونٹنی، بکرا ، بکری ، بھیڑ اور دنبہ کی قربانی جائز ہے ، ان کے علاوہ دیگر جانوروں مثلاً مرغا، مرغی ، خورگوش ، بطخ اور کبوتر وغیرہ کی قربانی جائز نہیں اور قربانی کی نیت سے ذبح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ مسئلہ : قربانی کے جانوروں میں سے اونٹ پانچ سال ، گائے ، بیل، بھینس اور بھینسا دو سال کا، بکرا بکری، بھیر اور دنبہ ایک سال کا ہونا ضروری ہے ، اس سے کم عمر والے جانور کی قربانی جائز نہیں ۔ البتہ چھے ماہ کا دنبہ اس قدر فربہ ہو کہ وہ سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی درست ہے ۔ مسئلہ: قربانی کے جانور میں حضرات فقہائے کرام نے عمر کا لحاظ رکھا ہے اور دو دانت ہونے کو اس کی علامت قرار دیا ہے ، لہٰذا جانور اگر سن رسیدہ ہو تو اس کی قربانی درست ہے اور دو دانت کی علامت ہو تو بہتر ہے او راگر دو دانت کی علامت نہیں لیکن سن رسیدہ ہے تو بھی اس کی قربانی درست ہے ۔ مسئلہ:اگر بکرے کے سال مکمل ہونے میں ایک آدھ دن باقی ہے تو اس کی قربانی درست نہیں ۔مسئلہ : اگر جانور دیکھنے میں کم عمر کا معلوم ہوتا ہو مگر یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ اس کی عمر پوری ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔ مسئلہ: نیل گائے، اور ہرن حلال جانور ہیں ان کا گوشت کھانا جائز ہے، لیکن چوں کہ وحشی جانور ہیں اس لیے ان کی قربانی جائز نہیں۔ اسی طرح گھوڑے کی قربانی بھی جائز نہیں۔
قربانی کے حصے
مسئلہ: گائے ، بیل ، بھینس، بھینسا، اونٹ اور اونٹنی میں سات افراد شریک ہوں تو مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ قربانی درست ہے: تمام شرکاء مسلمان ہوں زیادہ سے زیادہ حصہ دار سات ہوں۔ثواب حاصل کرنے کی نیت سے شریک ہوں ، اگر چہ ثواب حاصل کرنے کی جہت مختلف ہو ، مثلاً واحب قربانی ، نفلی قربانی، عقیقہ اور ولیمہ، لہٰذا اگر کوئی شخص گوشت حاصل کرنے کی نیت سے شریک ہو گا تو سب کی قربانی درست نہیں۔ سب کی آمدنی حلال ہو ۔ مسئلہ: سات افراد سے کم مثلاً چار یا پانچ یا چھ یا اس سے بھی کم افراد شریک ہوں تب بھی قربانی کرنا درست ہے ، البتہ سات افراد سے زیادہ اگر شریک ہوئے تو کسی کی قربانی نہیں ہو گی ۔
وہ جانور جن کی قربانی جائز ہے
مسئلہ: جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں یا بعد میں ٹوٹ گئے ہوں ، بشرطیکہ سینگ جڑ سے نہ ٹوٹا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ مسئلہ: جس بھیڑ یا بکری کی دم پیدائشی طور پر چھوٹی ہو تواس کی قربانی درست ہے ۔ مسئلہ: جو جانو رکا نا ہو لیکن اس کا کانا پن ظاہر نہ ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ۔ مسئلہ: لنگڑا جانور جو چلنے پر قادر ہو اور چوتھا پاؤں زمین پر رکھ کر اوراس کا سہارا لے کر چلتا ہو ، تو اس کی قربانی جائز ہے۔ مسئلہ: جو جانور بیمار ہو ، لیکن اس کی بیماری ظاہر نہ ہو تو اس کی قربانی درست ہے ۔ مسئلہ: جس جانور کو کھانسی یا خارش کی بیماری لاحق ہو اس کی قربانی درست ہے ۔ مسئلہ: جس جانور کا کان چیر دیا گیا ہو ،یا ایک تہائی سے کم کاٹ دیا گیا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ مسئلہ: جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں تو اس کی قربانی جائز نہیں اور اگر کچھ گر گئے ہیں لیکن باقی زیادہ ہیں اور چارہ کھا سکتا ہے تو اس کی قربانی درست ہے ۔ مسئلہ: جس جانو رکے بال کاٹ دیے گئے ہوں اس کی قربانی جائز ہے ۔ مسئلہ: بانجھ جانور کی قربانی جائز ہے ، اس لیے کہ بانجھ ہونا قربانی کے لیے عیب نہیں ۔ مسئلہ: خصی بکرے ، مینڈھے او ربیل کی قربانی جائز ہے او راس میں کسی قسم کی کراہت نہیں ، چاہے خصیتین کو کاٹ دیا گیا ہو یا دبا کر بے کار کر دیا گیا ہو، اس لیے کہ یہ گوشت کی عمدگی کے لیے کیاجاتا ہے اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس خصی جانور کی قربانی فرمائی ہے ، اس لیے خصی ہونا نہ صرف یہ کہ عیب نہیں بلکہ قربانی کے جانور کا ایک پسندیدہ وصف ہے ۔ مسئلہ: جس جانور کے پیٹ میں بچہ ہو اس کی قربانی صحیح ہے، البتہ ولادت کے قریب ذبح کرنا مکروہ ہے ، تاہم دبح کے بعد اگر بچہ زندہ ہو تو اس کو بھی ذبح کر لیا جائے اور کھا لیا جائے اور اگر مردہ ہو تو اس کا کھانا جائز نہیں۔
وہ جانور جن کی قربانی ناجائز ہے
مسئلہ: جس جانور کے سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے ہوں اس کی قربانی جائز نہیں۔ مسئلہ: جس جانو رکے پیدائشی کان ہی نہیں ، یا پورا ایک کان کٹا ہوا ہے، یا تہائی حصہ یا اس سے زیادہ کٹا ہوا ہے ، اس کی قربانی درست نہیں ۔ مسئلہ: جس جانور کی ناک کٹی ہوئیہے ، اس کی قربانی جائز نہیں۔ مسئلہ: جو جانور اندھا ہو یا اس کی تہائیبینائی یا اس سے زیادہ جاتی رہی ہو ، اس کی قربانی جائز نہیں۔ مسئلہ: جس جانور کی زبان کٹی ہوئی ہو اور چارہ نہ کھا سکتا ہو اس کی قربانی درست نہیں ۔ مسئلہ: جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں ، اس کی قربانی جائز نہیں۔ مسئلہ: بھیڑ، بکری اور دنبی کے ایک تھن سے دودھ نہ اترتا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔ مسئلہ: بھینس گائے او راونٹنی کے دو تھنوں سے دودھ نہ اترتا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں ۔ مسئلہ: جو جانور اتنا لنگڑا ہے کہ فقط تین پاؤں سے چلتا ہے ، چوتھا پاؤں رکھا ہی نہیں جاتا یا رکھا تو جاتا ہے مگر جانور چل نہیں سکتا تو اس کی قربانی جائز نہیں۔ مسئلہ: جس جانور کی دُم ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٹی ہوئی ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔ مسئلہ: ایسا دُبلا اور لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودانہ ہو ، یا ذبح کرنے کی جگہ تک نہ جاسکتا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔
قربانی کا وقت
مسئلہ: عید الاضحی کی دسویں تاریخ کی صبح صادق سے بارہویں تاریخ کی شام تک قربانی کا وقت ہے۔ ان تینوں دونوں میں جس وقت بھی قربانی کی جائے درست ہے ، لیکن افضل بقر عید کا پہلا دن ہے ، پھر دوسرا ، پھر تیسرا۔ مسئلہ: گیارہویں اور بارہویں ذوالحجہ کی رات کو قربانی کا جانور ذبح کرنا درست ہے ، لیکن بہتر یہ ہے کہ رات کو ذبح نہ کیا جائے ، اس لیے کہ رگوں کے درست طریقے سے نہ کٹنے کا امکان ہے ۔ مسئلہ: بارہویں تاریخ کو سورج کے غروب سے پہلے تک قربانی درست ہے ، لیکن جب سورج غروب ہو جائے تو اس کے بعد قربانی درست نہیں ہو گی ۔ مسئلہ: شہرِ والوں پر لازم ہے کہ قربانی کا جانور عید کی نماز کے بعد ذبح کریں ، اس سے پہلے ذبح کرنا جائز نہیں ، تاہم شہروں میں اگر عید کی نماز کسی وجہ سے نہیں پڑھی جاسکی تو نماز عید کا وقت گزر جانے کا انتظار کیا جائے ، یعنی زوال تک انتظار کیا جائے پھر زوال کے بعد قربانی کی جائے ۔ مسئلہ: کسی عذر کی وجہ سے اگر عید کی نماز دسویں ذوالحجہ کو نہیں پڑھی جاسکی،بلکہ گیارہویں یا بارہویں کے لیے مؤخر کر دی گئی، تو گیارہویں اور بارہویں کو نماز عید سے پہلے قربانی کرنا درست ہے ۔ مسئلہ: اگر قربانی کرنے والے نے نماز عید ابھی تک نہیں پڑھی، مگر شہر میں کسی بھی جگہ نماز عید ادا کی گئی ہے تو وہ قربانی کر سکتا ہے ، اس لیے کہ خود قربانی کرنے والے کا نماز عید سے فارغ ہونا ضروری نہیں ، بلکہ مسجد یا عید گاہ میں نماز عید کا ادا ہو جانا کافی ہے۔ مسئلہ: دیہات او رگاؤں میں نماز عید وجمعہ واجب نہیں صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد قربانی کرنا درست ہے۔
ذبح کرنے کے ضروری مسائل
مسئلہ: جو شخص ذبح کرنا جانتا ہے تو اس کے لیے افضل یہ ہے کہ قربانی کا جانور خود ذبح کرے ، اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو دوسرے سے ذبح کراسکتا ہے مگر ذبح کے وقت وہاں خود موجود ہونا افضل ہے۔ اگر ذبح کرتے وقت مندرجہ ذیل دعا یا د ہو تو اسے پڑھے او راگر دعا یاد نہیں تو کوئی حرج نہیں ، دل سے نیت ہی کافی ہے ۔
دعا یہ ہے :” ﴿ إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَاْلأَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا أَنَا مِنَ المُشْرِکِینَ، إِنّ صَلاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَايَ ومَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیِْنَ، وبذلک أمرت وأنا أول المسلمین․ اللھم منک ولک ﴾․
پھر﴿بِسْمِ اللهِ اَللّٰہُ أَکْبَرُ﴾ کہہ کر ذبح کر یں اور اس کے بعد یہ دعا پڑھیں:﴿اَللّٰھُمَّ تَقَبّلْہ مِنِّيِ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ وخَلِیْلِکَ اِبْراھِیمَ عَلَیہِما الصلوة والسَّلاَم﴾
مسئلہ: ذبح کرنے کی اجرت لینا جائز ہے، بشرطیکہ اجرت متعین ہو۔ مسئلہ: عورت او ربچے کا ذبح کرنا بھی جائز ہے ، بشرطیکہ بچہ ذبح کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔ مسئلہ: قربانی میں ذبح کرتے وقت شرکاء کا نام پکارنے کی ضرورت نہیں ،البتہ ذبح کرنے والا ان سب کی نیت کرے۔ مسئلہ: تیز چُھری سے ذبح کرنا مستحب ہے۔ مسئلہ: ذبح کرنے کے فوراً بعد کھال نہ اتاری جائے ، بلکہ جسم ٹھنڈا ہونے کا انتظار کیا جائے، پھر کھال اتار دی جائے۔ مسئلہ: قبلہ رخ بائیں کروٹ پر جانو رکو لٹانا مستحب ہے ۔ مسئلہ: مرتد، قادیانی اور زندیق کا ذبیحہ حرام ہے ، ان سے قربانی کے موقع پر یا کسی او رجانور کا ذبح کرانا حرام ہے۔
گوشت کی تقسیم
مسئلہ: قربانی کا گوشت خو دکھانا او ررشتہ داروں ، مال داروں اور فقیروں میں تقسیم کرنا جائز ہے ، لیکن بہتر یہ ہے کہ تہائی حصہ خیرات کرے، اگر تہائی سے کم خیرات کیا تو بھی کوئی گناہ نہیں۔ مسئلہ: بڑے جانور میں اگر سات آدمی یا اس سے کم شریک ہوں تو گوشت تقسیم کرتے وقت اٹکل سے نہ بانٹیں ، بلکہ تو ل کر وزن کرنا ضروری ہے ، کمی بیشی کی صورت میں سود کا گناہ ہو گا۔ مسئلہ: جب شرکاء آپس میں گوشت تقسیم کرنا چاہیں تو وزن کرکے تقسیم کرنا ضروری ہے ، اگر سارا گوشت لوگوں میں تقسیم کرنا چاہیں ، یا پکا کرکھلائیں تو اس وقت تقسیم کرنا ضروری نہیں۔ مسئلہ: مستحب یہ ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصہ کرکے ایک حصہ اپنے اہل وعیال کے لیے ، ایک حصہ رشتہ داروں میں او رایک حصہ فقراء اور محتاجوں میں تقسیم کرے۔ اگر کوئی شخص عیال دار ہونے کی وجہ سے یاویسے ہی تمام گوشت خود رکھنا چاہتا ہے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ مسئلہ: قربانی کا گوشت ، سری پائے او چربی کا بیچنا جائز نہیں ، بالفرض اگر کسی نے فروخت کر لیا تو اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے ، اپنے پاس رکھنا یا استعمال میں لانا جائز نہیں ۔ مسئلہ: قصائی کو بطور اجرت گوشت دینا جائز نہیں۔مسئلہ: قربانی کا گوشت سکھا کر رکھنا درست ہے۔
قربانی کی کھال
مسئلہ: قربانی کرنے والا یا اس کے اہل وعیال کھا ل کو اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں ، مثلاً جائے نماز ، موزہ ، مشکیزہ اور دسترخاون بنا کر اپنے استعمال میں لانا جائز ہے ۔ مسئلہ: کھا ل کسی امیر شخص کو بھی دینا جائز ہے ،البتہ فروخت کرنے کے بعد قیمت کا صدقہ کرنا ضروری ہے ، قیمت اپنے استعمال میں لانا یا کسی غنی اور امیر کو دینا جائز نہیں۔ مسئلہ: کھال یا اس کی قیمت کسی ملازم کو تنخواہ اور کام کے عوض میں دینا جائز نہیں ، جیسے امام، مؤذن اور قصائی کو بحق اجرت کھال دینا درست نہیں ، البتہ اگر یہ لوگ مستحق ہوں تو مستحق ہونے کی وجہ سے دینا درست ہے ۔ مسئلہ: قربانی کی کھال کسی ایسے ادارے یا انجمن یا کسی ایسے رفاہی ادارہ کو دینا جائز نہیں جو اس رقم کو مستحقین پر خرچ نہیں کرتی بلکہ جماعت اور ادارہ کی دیگر ضروریات میں خرچ کرتی ہے ۔ مسئلہ :قربانی کے بعد جانو رکی رسی ، جھول اور ہار کا صدقہ کرنا بہتر ہے ان کا بیچنا یا حق الخدمت کے طور رپر دینا جائز نہیں ۔مسئلہ : موجودہ زمانے میں دینی مدارس میں چرمہائے قربانی کا دینا سب سے افضل او ربہتر ہے ، اس لیے کہ غریب طلبہ کی امداد بھی ہے اور علم دین کی خدمت بھی۔

No comments:

Post a Comment