Wednesday 26 November 2014

مسجد اقصیٰ کا تعارف



مسجد اقصیٰ کا تعارف

مسجدِ اقصیٰ کے ساتھ مسلمانوں کا جو قلبی تعلق اور محبت ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، فلسطینی مسلمان جو بیت المقدس کے تحفظ کے لیے عظیم قربانیاں پیش کررہے ہیں وہ گویا پوری اُمت کا فرض کفایہ اداء کررہے ہیں، اِسی لیے اُمت مسلمہ میں مجموعی طور پر ان کے بارے میں جو ہمدردی پائی جاتی ہے وہ ایمانی اخوت کا مظہرہے۔
اس مبارک مسجد کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا ایک جامع تعارف پیش کردیا جائے تاکہ مکمل معلومات ہمارے قارئین کے ذہن نشین ہو جائیں۔
بنیاد:
احادیثِ طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ روئے زمین پر بننے والی مساجد میں سے دوسری یہی مسجد اقصیٰ ہے اور اولیت کا شرف مسجدِ حرام کو حاصل ہے، ان دونوں مسجدوں کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہے۔ البتہ یہ سوال کہ اس مسجد کاسب سے پہلا بانی کون ہے؟ اس بارے میں کوئی بھی صریح اور صحیح دلیل موجود نہیں ہے، البتہ جو چیز بلااختلاف ثابت ہے وہ یہ ہے کہ یہ مسجد انبیاء کرام کے ہاتھوں مختلف زمانوں میں تعمیر ہوتی رہی ہے اور ان کی عبادت گاہ کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔
نام:
اس مسجد کے متعدد نام ہیں اور ضابطہ یہ ہے کہ جس چیز کے نام واوصاف زیادہ ہوں تو وہ چیز عظمت والی شمار ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کے نام کے ساتھ حافظ، قاری، عالم، مفتی، مفسر، محدث وغیرہ القاب لگے ہوں تویہ اس کی عظمت شان کو بتلاتے ہیں۔ اسی طرح مسجد اقصیٰ کے متعدد نام ہیں جو قرآن وسنت میں استعمال ہوئے ہیں، ان میں مشہور نام تین ہیں: (۱)مسجداقصیٰ (2) بیت المقدس (3) ایلیاء
حدودِاربعہ:
عام طور سے مسجد اقصیٰ کے تعارف کے سلسلے میں جو ’’قبہ‘‘ والی تصویر دکھائی جاتی ہے تو اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید بس یہی جگہ مسجد اقصیٰ ہے ، حالانکہ جس چار دیواری میںیہ قبۃ الصخرۃ واقع ہے اس چار دیواری کے مکمل احاطے کا نام مسجد اقصی ہے، جس میں وہاں موجود دروازے، صحن، جامع قبلی، قبۃ الصخرۃ، مصلیٰ مروانی، متعدد قبے، اورپانی کے حوض وغیرہ شامل ہیں، اسی طرح مسجد کی فصیل پر اذان کہنے کی جگہیں بھی اسی میں شامل ہیں۔ اس پورے احاطے میں صرف قبۃ الصخرۃ اور مصلیٰ قبلی چھت دار ہیں جبکہ باقی تمام احاطہ چھت کے بغیر ہے۔ اس پورے احاطے کی وسعت 144ہزارمربع میٹر ہے۔
مصلیٰ قبلی:
عام طور پر اسی حصے کو مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے، یہ عمارت اس چاردیواری کے بالکل مین گیٹ کے پاس بنی ہوئی ہے، اسی عمارت میں پانچوں نمازیں اورجمعہ کی جماعت کرائی جاتی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر خلیفہ عبدالملک بن مروان نے شروع کرائی تھی اوراس کی تکمیل خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں 70ہجری میں ہوئی۔ اس کا اندرونی احاطہ 80میٹر اور چوڑائی 55 میٹرہے۔ اس کے کل گیارہ دروازے ہیں۔
قبۃ الصخرۃ:
مسجد اقصیٰ کی تصاویر میں عمومی طور پریہی قبہ دکھایا جاتا ہے جیسا کہ پہلے بتایا ہے کہ یہ بھی مسجداقصیٰ ہی کے احاطے میں داخل ہے، اسے خلیفہ عبدالملک بن مروان نے نئے سرے سے تعمیر کرایا تھا اور اپنی ساخت کے لحاظ سے مسلم ماہرین فن کاعظیم شاہکار تسلیم کیاجاتا ہے۔ صخرۃ عربی میں چٹان کو کہتے ہیں ، جو بلند سی جگہ ہوتی ہے، چنانچہ اس بلند سی جگہ پر مسجد اقصیٰ کونمایاں کرنے کے لیے یہاں یہ قبہ بنایا گیا تھا۔
مسجد اقصیٰ کے دروازے:
مسجد اقصیٰ ایک لمبی چاردیواری یعنی فصیل کے درمیان واقع ہے۔ پرانے دستور کے مطابق اس فصیل میں متعدد دروازے رکھے گئے ہیں۔ یہ دروازے شمالی اورجنوبی اطراف میں بنائے گئے ہیں اور ان دروازوں کی کل تعداد 14 ہے، ان میں چار دروازے فی الوقت بالکلیہ بند ہیں اور جو دروازہ مسجد کے بالکل قریب واقع ہے اس پر بھی اسرائیلی فوجیوں نے قبضہ کررکھا ہے۔ جو دروازے کھلے ہوئے ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں: باب الاسباط، باب حطۃ، باب عتم، باب غوانمۃ، باب مطہرۃ، باب قطانین، باب سلسلۃ، باب مغاربۃ، باب حدید، باب ناظر
مآذن:
یعنی اذان کی جگہیں:پرانے وقتوں کا دستور یہ تھا کہ اذان کہنے کی جگہ یا تو مینار میں رکھی جاتی تھی یا پھر مسجد کی فصیل پر کوئی بلند جگہ منتخب کرلی جاتی تھی تاکہ اذان کی آواز دور دور تک جاسکے، چنانچہ اسی طرز پر مسجد اقصیٰ کے ارد گرد بھی جو فصیل ہے اس پر چار جگہیں اذان کے لیے بنائی گئی ہیں ۔ ان کے نام درج ذیل ہیں:
مئذنۃ فخریۃ: یہ جگہ مسجد اقصیٰ کے جنوب مغرب میں واقع ہے
مئذنۃ باب غوانمۃ: شمال مغربی کونے میں یہ جگہ بنائی گئی ہے اور اذان کی تمام جگہوں میں سے یہی جگہ سب سے زیادہ بلند اور مضبوط عمارت والی ہے۔
مئذنۃ باب سلسلۃ: مسجد اقصیٰ کی مغربی جانب میں واقع ہے اور اسے منارۃ الحکم بھی کہاجاتا ہے۔
مئذنۃ باب اسباط: اذان کی یہ جگہ مسجد اقصیٰ کے شمالی جانب میں واقع ہے اور خوبصورتی میں یہ جگہ سب سے فائق ہے۔
مصلیٰ مروانی:
مصلیٰ عربی زبان میں نماز کی جگہ کو کہتے ہیں۔ یہ جگہ مسجد اقصیٰ کے جنوب مشرقی جانب میں واقع ہے اور اس کے بھی متعدد دروازے ہیں ، دو دروازے جنوبی سمت میں اور پانچ دروازے شمالی جانب میں بنائے گئے ہیں۔
عبدالملک بن مروان کے زمانے میں یہ جگہ ایک مدرسے کے طور پر مختص کی گئی تھی اوراسی مناسبت سے اس کا نام ’’مصلیٰ مروانی‘‘ مشہور ہوگیا، اسرئیلی جارحیت کے بعد سے یہ جگہ کافی عرصہ تک نمازیوں کے لیے بند رہی لیکن 1996ء میں مسلمانوں کی جدوجہد کے نتیجے میں اسے نمازیوں کے لیے کھول دیا گیا تھا۔
وضوخانے:
مسجد اقصیٰ میں وضوء کے لیے حوض بنایا گیا ہے۔ حوض کے اردگرد پتھر کی کرسیاںبنائی گئی ہیں تاکہ ان پر بیٹھ کر وضو کیاجاسکے۔ یہ حوض سلطان ابوبکر بن ایوب نے 1193ء میں بنوایا تھا۔
دیوارِ براق:
یہ دیوار مسجد کی جنوب مغربی دیوار کا حصہ ہے جس کی لمبائی 50میٹر اور بلندی 20میٹر ہے، یہ دیوار بھی مسجد اقصیٰ کا حصہ ہے۔ یہودی اسے ’’دیوارِگریہ‘‘ کے نام سے پکارتے ہیںاوران کا گمان یہ ہے کہ یہ دیوارگریہ ان کے مزعومہ ہیکل کا بچا ہواحصہ ہے۔
کنویں:
بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کیلئے کچھ کنویں بھی مسجد اقصیٰ میں بنائے گئے ہیں جن کی تعداد 26 ہے، ان میں سے نو قبۃ الصخرۃ کے ارد گرد اوردیگر مسجد اقصیٰ کے صحن میں موجود ہیں اورہرکنویں کا الگ الگ نام ہے جس سے اس کی پہچان ہوتی ہے۔
درسگاہیں:
چونکہ مسجد اقصیٰ میں مستقل علمی حلقے لگاکرتے تھے، اس لیے مختلف علماء نے وہاں کچھ درسگاہ طرز کی مخصوص نشستیں بنوادی تھیں تاکہ طلبہ وہاں بیٹھ کرعلم حاصل کریں، ایسی جگہیں تقریبا تیس کے قریب ہیں جن میں سے بعض مملوکی زمانے میں اور بعض خلافت عثمانیہ کے دور میں بنائے گئے تھے۔
منبربرہان الدین:
یہ منبر سب سے مشہور اور اپنی ساخت کے لحاظ سے ایک یادگار تحفہ ہے، گرمیوں کے موسم میں درس وتدریس اور محاضرات کے لیے اسی کو استعمال کیاجاتا ہے۔
٭…٭…٭
درج بالا سطور مسجد اقصیٰ کا ایک مختصر ساتعارف ہے، یہ سب کچھ مسلمانوں کا ورثہ اوران کی شناخت ہے جسے اسرائیل کے یہودی چھیننا چاہتے ہیں اورابھی تک وہ اپنی سازشوں اور عالمی کفریہ قوتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے یہاں خوب گند بھی پھیلارہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ امت مسلمہ میں اس حوالے سے مؤثر بیداری پیدا کی جائے تاکہ یہ مقدس مقامات بدخصلت یہودیوں کے وجود سے پاک ہوں اوریہاں ایک اللہ کی عبادت کرنے والوں کامکمل تصرف ہو۔

www.Quran322.blogspot.com
Skype id Ubaid322
Mob +92322-2984599

No comments:

Post a Comment