Saturday, 13 August 2016

آزادی کا دن



آزادی کا دن

14اگست پاکستان کے عوام کا آزادی کا دن ہے، آزادی کا دن انتہائی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947میں برطانیہ اور ہندوئوں سے آزاد ہو کر معرض وجود میں آیا۔ 14 اگست کا قومی تہوار پاکستان میں سرکاری سطح پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ تمام پاکستانی اس روز اپنا قومی پرچم فضاء میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ پورے ملک میں ہر طرف سبز ہلالی جھنڈیاں اور پاکستانی پرچم لہراتے ہیں۔ شام میں جشن چراغاں منایا جاتا ہے۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 14 اگست 1947 کو جب آزادی کی دولت نصیب ہوئی اس وقت کا جذبہ آج کہیں نظر نہیں آتا۔ اس وقت ہم ذات پات، علاقے اور لسانی گروہوں کے بجائے ایک ملت تھے جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر اکٹھے تھے۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمان ایک ہوئے جس کے باعث ہمیں الگ وطن ملا لیکن آج وہ جذبہ میسر نہیں ہے۔ ہم نے اللہ کی رسی کو چھوڑ دیا ہے اور صوبائیت، لسانیت اور قومیت کے علم بردار بن گئے ہیں۔ کل ہم نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ ہمیں ایک الگ خطہ زمین مل جائے تو ہم اس میں اسلام کے مطابق قانون سازی کریں گے اور اسلامی قوانین کا نفاذ کریں گے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلامیہ کالج پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔‘‘
مگر آج ہم اپنے اللہ، رسول ﷺ، کتاب کے ساتھ ساتھ اپنے قائد کے فرمان کو فراموش کر چکے ہیں۔ آج ہم اسلامی اصولوں کی بجائے انگریزوں اور یہودیوں کے بنائے ہوئے اصولوں کے تابع ہیں۔ ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں نے صرف اللہ کے نام کی خاطر اپنا گھر بار، جائیدادیں، چھوڑیں، ہزاروں لوگ شہید ہوئے، مائوں اور بہنوں کی عصمتیں لٹیں صرف اس لیے کہ ایک ایسا خطہ زمین حاصل کیا جائے جہاں اپنے دین اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ جب لوگ ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تو یہاں پر موجود مسلمان بھائیوں نے ان کو آگے بڑھ کر نہ صرف گلے لگایا بلکہ ان کے زخموں پر مرہم بھی رکھا۔
1947 سے پہلے ہم ایک قوم تھے، جسے ایک ملک کی ضرورت تھی، اس قوم نے ایمان، یقین، محکم کے بل بوتے پر ایک تاریخ ساز جدوجہد کی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ایک آزاد، خود مختار ریاست ابھری، دنیا کے نقشے میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی ریاست تھی جس کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔
ان گنت قربانیوں کے صلے میں ملنے والی آزاد ریاست کے استحکام و سالمیت کے لیے ہر فرد اپنے کردار ادا کرنے میں تن من دھن سے مصروف گیا۔ جوں جوں وقت کا دھارا بہتا گیا اپنے پیچھے بہت سی تبدیلیاں چھوڑتا گیا اور آج 69 سال کے بعد وطن عزیز کے حالات پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمارے پاس ایک وطن تو ہے مگر اس وطن کو ایک قوم کی ضرورت ہے۔
آج وطن عزیز میں بسنے والے خود کو پاکستانی کہلانے کے بجائے پختون، بلوچ، پٹھان، پنجابی، سندھی، مہاجر کہلاتے ہیں، خود کو پاکستانی کہلانے اور عمل سے پاکستانی ثابت کرنیوالے آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور بے شک یہی وہ لوگ ہے جن کے آبائو اجداد نے قربانیاں دیں کیونکہ یہ لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ آزادی کی کتنی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے، کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، آگ و خون کے دریا سے گزرنا پڑتا ہے جب کہیں جا کر آزادی نصیب ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘ لیکن بدقسمتی سے ہم نے چھوڑی تو صرف اللہ کی رسی اور دنیا کی تمام رسیاں اور علم کو تھام لیا ہے۔ آج ہم تفرقے میں نہیں بہت سے ’’فرقوں‘‘ میں بٹے ہوئے ہیں۔ آج ہم ایک مسلمان ہونے کے بجائے وہابی، دیوبندی، بریلوی، شیعہ اور سنی کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور یہی نہیں ان مسالک میں بھی اپنے اپنے مفادات کی خاطر تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے۔ پھر انھی فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کا گلا کاٹتے ہیں۔ کیا اسلام ایک دوسرے کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے؟
مگر ہم اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اپنے پاکستان (جو تمام دنیا میں اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے اور واقعتاً ہے بھی) میں اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی بجائے کافروں کا طرز عمل اپنا رہے ہیں۔ قائد کے اس دیس میں طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت دہشتگردی کی جا رہی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ ایک دوسرے کی املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
14اگست کے دن پاکستان بھر میں مختلف مقامات پر تقریبات ہوتی ہیں۔ اس دن کا آغاز توپوں کی سلامی سے کیا جاتا ہے۔ صدر پاکستان اور وزیر اعظم قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس پرچم کی طرح اس وطن عزیز کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے مگر یہ عہد صرف زبانی کلامی ہوتا ہے اس عہد پر عمل نہیں ہوتا۔ آج پاکستان کو قائم ہوئے69 برس ہو گئے ہیں مگر آج کل جو دور گزر رہا ہے وہ میں بیان نہیں کر سکتا اور بدقسمتی سے اپنوں کی مہربانوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں سے ہر آنیوالا دن نئی آفات اور پریشانیاں لے کر داخل ہوتا ہے۔
ہر طرف قتل و غارت ہو رہی ہے جیسے قیام پاکستان کے وقت ہوئی تھی۔ ان تقاریر کے علاوہ نہ صرف صدارتی اور پارلیمانی عمارات پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے بلکہ پورے ملک میں سرکاری اور نیم سرکاری عمارات پر بھی سبز ہلالی پرچم پوری آب و تاب سے لہرایا جاتا ہے۔ جشن آزادی کی ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ یوم آزادی کے موقعے پر ریڈیو، ٹیلی ویژن پر خصوصی پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ ملی نغمے پیش کیے جاتے ہیں۔ اخبارات خصوصی ایڈیشن شایع کرتے ہیں۔ پاکستانی قوام کو ارض وطن کا 69 واں یوم آزادی مبارک ہو لیکن یوم آزادی منانے سے پہلے سوچ لیں کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ کیا بحیثیت ملک ہم آزاد ہیں کہ اپنی خارجہ پالیسی خود بنا سکیں؟ کیا ہماری پارلیمنٹ اتنی آزاد ہے کہ وہ قیام پاکستان اور اسلام کے مطابق قانون سازی کر سکے؟
عوام اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں، بیوروکریٹس، علماء کرام، تاجروں، صنعتکاروں اور اساتذہ سے ’’ قائد اعظم کا پاکستان‘‘ مانگتی ہے، جہاں فیصلے ملک کے مفاد میں ہوتے ہوں۔ جہاں میرٹ کو ہر دوسرے عمل پر ترجیح حاصل ہو۔ جہاں قانون کی پابندی امیر و غریب کے لیے یکساں ہو۔ جہاں اسلام کے مطابق زندگی گزاری جائے اور اسلامی قوانین اپنائے جائیں۔ دعا ہے کہ اللہ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے کہ وہ پاکستان کو اس طرح کا پاکستان بنا دے جس کا خواب ہمارے قائد نے دیکھا تھا۔ جہاں پر صرف اور صرف اسلام کی حکمرانی ہو اور ہر طرف خوشحالی و ترقی ہو۔ آخر میں پاکستان کی سسکتی اور تڑپتی قوم کو آزادی مبارک ہو۔ دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو دن دگنی  اور رات چوگنی ترقی دے۔ (آمین )