( قرآن کا راستہ (زندگی کا سفر: ازلی و ابدی زندہ حقیقت
قرآن خدائے حی و قیوم کا کلام ہے۔ یہ تمام آنے والے وقتوں میں انسان کی رہنمائی کے لئے نازل کیا گیا ہے۔ کوئی کتاب اس کی مثل نہیں ہو سکتی۔جیسے جیسے آپ قرآن کی طرف قدم بڑھاتے ہیں ، آ پ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کے قریب ہوتے جاتے ہیں۔ قرآن پڑھنا، اللہ تعالیٰ کو سننا، اس سے باتیں کرنا اور اس کے راستے پر چلنا ہے۔ یہ زندگی دینے والے کے سامنے زندگی کو پیش کرنا ہے۔ ’’اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے، وہ زندہ جاوید ہستی ہے۔ جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ اس نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے جو حق لے کر آئی ہے۔۔۔ انسانوں کی ہدایت کے لئے‘‘ (آل عمران ۳:۲۔۳)۔
جن لوگوں نے اسے سب سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا، اس کے لئے قرآن ایک چلتی پھرتی حقیقت تھی۔ انھیں اس با رے میں ذرہ برابر شبہ نہ تھا کہ رسولؐ کے ذریعے، خود اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہو رہا ہے۔ اس لئے وہ جب اسے سنتے تھے تو یہ ان کے د ل اور دماغ پر چھا جاتا تھا۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے، ان کے جسم کانپنے لگتے تھے۔ وہ اس کے ہر لفظ کو زندگی کے معاملات اور تجربات سے بالکل متعلق پاتے تھے، اور اسے مکمل طور پر اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیتے تھے۔ اس قرآن نے ان کو ، فرد اور معاشرے کی دونوں حیثیتوں سے، ایک بالکل نئے، زندہ اور حیات آفریں وجود میں مکمل طور پر تبدیل کر دیا تھا۔جو بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ اونٹوں کی گلہ بانی کرتے تھے، معمولی کاروبار کرتے تھے، انسانیت کے رہنما بن گئے۔
آج ہمارے پاس وہی قرآن ہے۔ اس کے لاکھوں نسخے گردش میں ہیں۔ گھروں میں ، مسجدوں میں ، منبروں سے دن اور رات مسلسل اس کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اس کے معنی و مطالب کے جاننے کے لئے تفاسیر کے ذخیرے موجود ہیں۔ اس کی تعلیمات کو بیان کرنے کے لئے، اور ہمیں اس کے مطابق زندگی گزارنے پر آمادہ کرنے کے لئے، تقاریر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن آنکھیں خشک رہتی ہیں ، دلوں پر اثر نہیں ہوتا، دماغوں تک بات نہیں پہنچتی، زندگیوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ ایسا لگتا ہے کہ ذلت و پستی قرآن کو ماننے والوں کے لئے لکھ دی گئی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ اب ہم قرآن کو زندہ حقیقت کے طور پر نہیں پڑھتے۔ یہ ایک مقدس کتاب ضرور ہے مگر ہمارا خیال ہے کہ یہ ہمیں صرف ماضی کی باتیں بتاتی ہے۔۔۔ کافروں کے بارے میں ، مسلمانوں کے بارے میں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے بارے میں ، مومنین اور منافقین کے بارے میں۔۔۔۔وہ جو کسی زمانے میں ہوتے تھے!
کیا آج، صدیاں گزرنے کے بعد بھی، قرآن ہمارے لئے اسی طرح طاقت بخش ہو سکتا ہے جیسا وہ اس وقت تھا؟ یہ اہم ترین سوال ہے جس کا ہمیں جواب دینا ہے۔۔۔ اگر ہم قرآن کی رہنمائی میں اپنی تقدیر کی از سر نو تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو!
اس میں مشکلات نظر آتی ہیں ، جن میں ایک یہ احساس بھی ہے کہ قرآن جس خاص زمانے میں نازل کیا گیا تھا،ہم اس سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑی بڑی چھلانگیں لگائی ہیں ، اور انسانی معاشرے میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں ، آج قرآن کے پیروں کاروں میں سے بیش تر عربی نہیں جانتے اور جو جانتے ہیں وہ قرآن کی زندہ زبان کو کم ہی سمجھتے ہیں۔ ان سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ قرآنی محاوروں اور استعاروں کو سمجھیں گے جو قرآن کے مطالب کی گہرائیوں کو تلاش کرنے اور جذب کرنے کے لئے بے حد ضروری ہے۔ لیکن اس کے اپنے دعوے کے مطابق، اس کی ہدایت تمام انسانوں اور تمام زمانوں کے لئے ہمیشہ کے لئے ہے اس لئے کہ یہ ہمیشہ رہنے والے خدا کی طرف سے ہے۔ اگر یہ دعویٰ سچا ہے اور لاریب سچا ہے تو میرے خیال میں ہمارے لئے یہ ممکن ہونا چاہیئے کہ کسی نہ کسی درجے میں کسی نہ کسی حد تک ہم قرآن کو اسی طرح جانیں ، سمجھیں اور تجربہ کریں ، جیسا کہ اس کے اولین مخاطبین نے کیا تھا۔ یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کہ ہدایت ہمیں اپنی مکمل شان، کمالات اور انعامات کے ساتھ ملے ہمارا حق ہے۔ دوسرے الفاظ میں قرآن کے زمان و مکان کے ایک خاص لمحے میں ایک خاص زبان میں نزول کے تاریخی واقعے کے باوجود ہمیں قرآن کو اب اسی وقت نازل ہوتا ہوا محسوس کرنا چاہیے (کیونکہ اس کا پیغام دائمی ہے( اور ہمارے لئے یہ ممکن ہونا چاہئے کہ اس کے پیغام کو اپنی زندگیوں کا اسی طرح حقیقی حصہ بنا لیں جس طرح کہ اس پر ایمان لانے والے اولین لوگوں نے بنایا تھا اور اپنے تمام موجودہ حالات اور پریشانیوں میں فوری اور مکمل رہنمائی اسی طرح اس سے پائیں۔
مگر یہ ہم کس طرح کریں ؟
ا گر بالکل صاف صاف کہا جائے تو اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے قرآن کی دنیا میں اس طرح داخل ہوں جیسے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اب اور آج ہم سے مخاطب ہے اور اس کیفیت سے شعوری طور پر گزرنے کے لئے جو شرائط ضروری ہیں انھیں پورا کریں۔
اوّلاً ہمیں محسوس کرنا چاہیے کہ اللہ کا کلام ہونے کی حیثیت سے قرآن کتنا عظیم ہے، اور ہمارے لئے اس کا کیا مطلب ہے اور پھر اس کے لیے احترام و محبت اور تعلق کے جذبات اور ارادۂ عمل کو اسی طرح بروئے کار لائیں جو اس احساس کا تقاضا ہے۔
ثانیاً ہمیں قرآن کو اس طرح پڑھنا چاہئے جس طرح یہ چاہتا ہے کہ اسے پڑھا جائے، جس طرح پڑھنا اللہ کے رسولؐ نے ہمیں سکھایا ہے، جس طرح آپؐ خود اور آپ کے صحابہ کرامؓ اسے پڑھتے تھے۔
ثالثاً ہمیں چاہئے کہ زمان و مکان، تہذیب و ثقافت اور تغیرات و تبدیلات کی تبدیلی کی تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے قرآن کے ہر لفظ کی روشنی میں اپنے موجودہ حقائق اور مسائل کو سمجھیں۔
اپنے پہلے مخاطبین کے لئے، قرآن ان کے زمانے کا واقعہ تھا۔ اس کی زبان اور اس کا طرز بیان و استدلال، اس کے محاورے اور استعارے، اس کی علامات اور مثالیں ، اس کے واقعات و لمحات سب ان کے اپنے ماحول میں پیوست تھے۔ یہ لوگ نزول قرآن کے پورے عمل کے گواہ بھی تھے جو ان کی پوری زندگی میں مرحلہ بہ مرحلہ مکمل ہوا، اور ایک لحاظ سے شریک بھی۔ ہمیں یہ مقام حاصل نہیں ہے، لیکن کسی نہ کسی حد تک یہ ہمارے لئے بھی سچا ہونا چاہیے۔ اپنے حالات میں قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے ہم بڑی حد تک آج بھی اسی طرح اپنے زمانے کی چیز سمجھیں گے جیسا کے یہ اس وقت تھا۔
اس لئے کہ انسان کی سر شست میں تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ یہ غیر مبدل ہے۔ انسان کے صرف ظواہر۔۔۔شکلیں ، طریقے، ٹیکنالوجی تبدیل ہوئے ہیں۔ مکہ کے مشرک، مدینہ کے یہودی، نجران کے عیسائی اور مدینہ کی آبادی کے مومن اور غیر مومن، چاہے اب نہ پائے جاتے ہوں مگر یہ کردار ہمارے چاروں طرف موجود ہیں۔ ہم ٹھیک اسی طرح انسان ہیں جس طرح قرآن کے پہلے مخاطب انسان تھے، چاہے اس سادہ سچائی کے گہرے مضمرات سے نبٹنا ہمیں بے حد مشکل لگے۔
ایک دفعہ آپ ان حقائق کا ادراک کریں ، اور ان کی پیروی کریں۔ ایک دفعہ قرآن کی طرف اس طرح آئیں جس طرح اولین مسلمان آئے تھے۔ تب یہ آپ کے لئے بھی اسی طرح نازل ہوگا جس طرح ان پر ہوا تھا۔ آپ کو اسی طرح اپنا شریک کار بنائے گا جس طرح انھیں بنایا تھا۔ پھر یہ محض ایک قابل احترام کتاب ، مقدس دستاویز اور سحر انگیز سر چشمہ برکت کے بجائے ایک ایسی عظیم طاقت میں تبدیل ہو جائے گا جو ہم کو اپنی گرفت میں لے کر ہلائے
اور حرکت دے کر اعلیٰ کارناموں کے حصول کی طرف راہنمائی کرے، جیسا اس نے پہلے کیا۔