Tuesday, 20 October 2015

اسلام میں سلام کی اہمیت اور فضیلت

اسلام میں سلام کی اہمیت اور فضیلت
دنیا کی تمام متمدن ومہذب قوموں میں ملاقات کے وقت پیار ومحبت، جذبہٴ اکرام وخیراندیشی کا اظہار کرنے اورمخاطب کو مانوس ومسرور کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج ہے، ہمارے ملک میں ہمارے برادران وطن ملاقات کے وقت ”نمستے“ کہتے ہیں، اس نام نہاد ترقی یافتہ زمانہ میں Good Night/ Good Morning اور بعض روشن خیال حضرات ”صبح بخیر“ ”شب بخیر“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، حضرت عمران بن حصین کا بیان ہے کہ قبل از اسلام عرب کی عادت تھی، کہ جب وہ آپس میں ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو ”حَیَّاکَ اللّٰہُ“ (اللہ تم کو زندہ رکھے) ”أنْعَمَ اللّٰہُ بِکَ عَیْنًا“ (اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھ کو ٹھنڈا کرے) ”أَنْعِمْ صَبَاحًا“ (تمہاری صبح خوش گوار ہو) وغیرہ الفاظ استعمال کیا کرتے تھے، جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کردی گئی، یعنی اس کے بجائے ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ کی تعلیم دی گئی، جس کے معنی ہیں ”تم ہر تکلیف اور رنج ومصیبت سے سلامت رہو“ ابن العربی نے احکام القرآن میں فرمایا: لفظ ”سلام“ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے اور ”السلام علیکم“ کے معنی ہیں ”اللہ رقیب علیکم“ اللہ تمہارا محافظ ہے (مستفاد ازمعارف القرآن ۲/۵۰۱)
سلام کی جامعیت ومعنویت:
سلام نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے کہ یہ کلمہ پیار ومحبت اوراکرام کے اظہار کے لیے بہترین لفظ ہے اوراس کی کئی معنوی خصوصیات ہیں:
(۱) سلام اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے ہے۔ (بخاری ۲/۹۲۰ کتاب الاستیذان)
(۲) اس کلمہ میں صرف اظہارِ محبت ہی نہیں؛ بلکہ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ تمام آفات اور آلام سے محفوظ رکھیں۔
(۳) عرب کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی دعا نہیں؛ بلکہ حیاتِ طیبہ کی دعاء ہے۔
(۴) سلام کرنے والا اپنی زبانِ حال سے اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ یہ وعدہ بھی کرتا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو، تمہاری جان، مال اور آبرو کا میں محافظ ہوں۔
(۵) تذکیرہے، یعنی اس لفظ کے ذریعہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، ایک دوسرے کو اس کے ارادہ ومشیت کے بغیر نفع، ونقصان پہنچانہیں سکتے۔
(۶) یہ کلمہ اپنے سے چھوٹوں کے لیے شفقت، مرحمت اور پیار ومحبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لیے اکرام وتعظیم کا لفظ بھی۔
(۷) قرآن مجید میں یہ کلمہ انبیاء ورسل علیہم السلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اکرام اور بشارت کے استعمال ہوا ہے اوراس میں عنایت اور محبت کا رس بھرا ہوا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے، سَلَامٌ عَلٰی نُوْحٍ فِي الْعَالَمِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ، سَلاَمٌ عَلٰی مُوْسٰی وَہَارُوْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِلْیَاسِیْنَ، سَلاَمٌ عََٰی الْمُرْسَلِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی عِبَادہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی․
(۸) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی اسی طرح سلام عرض کیا جاتاہے۔
(۹) تمام ایمان والوں کو نماز میں بھی اس لفظ سے نبی علیہ الصلوٰة والسلام پر دُرود بھیجنے کی تلقین کی گئی ہے۔
(۱۰) آخرت میں موٴمنین کے جنت میں داخلہ کے وقت کہا جائے گا ”أُدخلُوہا بسلامٍ، سلامٌ عَلَیکُمْ بما صَبَرْتُم، فَنِعْمَ عُقبی الدارِ“ (مستفاد از معارف القرآن ۲/۵۰۱، معارف الحدیث۶/۱۴۹)
سلام کی اہمیت وفضیلت:
سلام، اسلام کا شعار، سلام جنتیوں کا سلام، اللہ سے قریب کرنے والا، محبتوں کو پیداکرنے والا، نفرتوں، کدورتوں اور عداوتوں کو مٹانے والا ہے، باہمی تعلق واعتماد کا وسیلہ اور فریقین کے لیے موجبِ طمانیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو باہم سلام کارواج دینے اور عام کرنے کی بڑی تاکید فرمائی کہ اسلامی دنیا کی فضاء اس کی لہروں سے معمور رہے اور اس کو افضل الاعمال قرار دیا اوراس کے فضائل وبرکات اور اجر وثواب کو بیان فرمایا ہے۔
اسلامی سلام کی سنت حضرت آدم علیہ السلام سے چلی آرہی ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ارشاد فرمایا: اے آدم! فرشتوں کی اس جماعت کے پاس جاؤ اور ان کو سلام کرو، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام گئے اور فرشتوں کی ایک جماعت سے السلام علیکم فرمایا، فرشتوں نے جواب میں عرض کیا وعلیکم السلام ورحمة اللہ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم یہ سلام تمہاری اور تمہاری اولاد کا تحیہ ہے۔ (بخاری کتاب الاستیذان ۲/۲۱۹)
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے؛ جب تک کہ مومن نہ بن جاؤ اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا؛ جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہارے آپس میں محبت قائم ہوجائے گی، وہ یہ کہ آپس میں سلام کو عام کرو، یعنی ہر مسلمان کے لیے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو سلام کرو۔(مسلم کتاب الایمان۱/۵۴)
حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لوگو! خداوند رحمن کی عبادت کرو اور بندگانِ خدا کو کھانا کھلاؤ (محتاج اور مسکین بندوں کو بطور صدقہ کے اور دوستوں عزیزوں اور اللہ کے نیک بندوں کو بطور ہدیہ، اخلاص اورمحبت کے کھانا کھلایا جائے، جو لوگوں کو جوڑنے اور باہم محبت والفت پیداکرنے کا بہترین وسیلہ ہے) اور سلام کو پھیلاؤ تو تم پوری سلامتی کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤگے (ترمذی، باب الاستیذان ۲/۹۸، ابوداؤد، ابواب السلام ۲/۷۰۶)
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس سے فرمایا:
اے بیٹے جب تم اپنے گھروالوں کے پاس جاؤ تو سلام کیاکرو، یہ سلام تمہارے لیے اور تمہارے گھر والوں کے لیے برکت کا سبب ہوگا۔(ترمذی ۲/۹۹)
حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے بندوں کو کھانا کھلانا اور جانا پہچانا اورانجان ہر ایک کو سلام کرنا، سب سے افضل عمل ہے (بخاری۲/۹۲۱)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کو مسلم معاشرہ میں عام کرنے کی انتہائی تاکید فرمائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے، پھر کچھ دیر بعد دیوار، درخت یا پتھر درمیان میں حائل ہوجائے تو پھر دوبارہ سلام کرے، یعنی جتنی بار ملاقات ہواتنی بار سلام کرتا رہے۔ (ابوداؤد۲/۷۰۷)
حضرت جابر فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرتا ہے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا حضرات صحابہ کرام پر غیرمعمولی اثر ہوا اور ان حضرات نے سلام کو اپنی عملی زندگی کا ایک جزء لا ینفک بنالیا، اس کا اندازہ ہم مندرجہ ذیل واقعہ سے لگاسکتے ہیں، حضرت طفیل بن ابی بن کعب فرماتے ہیں: حضرت ابن عمر مجھے لے کر اکثر بازار جایا کرتے تھے، بازار میں تاجر، خریدار، مسکین، گری پڑی چیز اٹھانے والا، غرض ہر کسی کو جس سے ملاقات ہوتی سلام کرتے، ایک دن میں نے عرض کیا، حضرت بازار میں آپ نہ خریدو فروخت کرتے ہیں، نہ بازار میں آپ کسی مجلس میں شریک ہوتے ہیں، لہٰذا بازار جانے کے بجائے، آپ یہاں تشریف رکھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کریں ہم سنیں گے، تو حضرت ابن عمر نے فرمایا: اے بطین (پیٹ والے) ہم بازار صرف مسلمانوں کو سلام کرنے کے لیے جاتے ہیں (کہ بازار میں لوگ ضروریات کی وجہ سے زیادہ رہتے ہیں اور ہم زیادہ مسلمانوں سے ملاقات کریں گے، انھیں سلام کریں گے اور زیادہ ثواب حاصل کریں گے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
سلام کا اجر وثواب:
سلام کرنا سنت ہے اورجواب دینا واجب ہے، واجب کا ثواب سنت سے زیادہ ہوتاہے، لیکن سلام کرنے کی سنت کا ثواب جواب دینے کے واجب سے زیادہ ہے۔ (مرقاة المفاتیح ۸/۴۲۱ باب السلام)
جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کے ذمہ جواب دینا تو واجب ہے، اگربغیر کسی عذر شرعی کے جواب نہ دے تو گنہگار ہوگا؛ البتہ جواب دینے میں دو باتوں کا اختیار ہے، ایک یہ کہ جن الفاظ میں سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دیا جائے، دوسرے یہ کہ بعینہ انھیں الفاظ سے جواب دے دیا جائے۔ (معارف القرآن ۲/۵۰۴)
حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور السلام علیکم کہا، آپ علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا، اور وہ شخص بیٹھ گئے، آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: دس نیکیاں، کچھ دیر بعد ایک دوسرے آدمی حاضر حدمت ہوئے اور السلام علیکم ورحمة اللہ کہا، آپ علیہ السلام نے جواب دیا اور وہ آدمی بیٹھ گئے اور آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بیس نیکیاں، کچھ دیر بعد ایک تیسرے شخص حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشاد فرمایا: تیس نیکیاں۔ (ترمذی ۲/۹۸، ابوداؤد۲/۷۰۶)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ مکمل سلام کرنے کے بعد تیس اور ہر ایک کلمہ پر دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔
سلام کے آداب:
(۱) سلام کرنے میں پہل کرے؛ اس لیے کہ سلام میں پہل کرنے سے عاجزی وتواضع پیداہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کو بندوں سے تواضع نہایت محبوب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں اللہ کے قرب اور اس کی رحمت کا زیادہ مستحق وہ بندہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرنے والا ہو۔ (ترمذی ۲/۹۹، ابوداؤد۲/۷۰۶)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ سلام میں پہل کرنے والا کبرونخوت سے بری ہوتا ہے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
(۲) سلام کرنے والا اور سلام کا جواب دینے والا ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ صیغہٴ جمع استعمال کریں، اگرچہ مخاطب اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔ (الاذکار النوویة:۱۹۴)
(۳) سلام اتنی بلند آواز سے کرے کہ سلام کیے جانے والے کو بآسانی آواز پہنچ جائے ورنہ جواب کا مستحق نہ ہوگا، نیز جواب دینے والا بھی اسی طرح بلند آواز سے جواب دے ورنہ جواب ذمہ سے ساقط نہ ہوگا۔ (الاذکار النوویة:۱۹۵)
(۴) جب کوئی سلام کرے تو بہتر طریقہ پر جواب دینا، کم از کم ویسے ہی الفاظ سے جواب دینا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جب تمہیں سلام کیاجائے تو تم سلام سے بہتر الفاظ سے جواب دو، یا اسی کے مثل جواب دو۔ (النساء:۸۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اس آیت کی تشریح اس طرح فرمائی کہ ایک مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا ”السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ آپ نے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا کہ ”وعلیکم السلام ورحمة اللہ“ پھر ایک صاحب آئے انھوں نے سلام میں یہ الفاظ کہے ”السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورحمة اللہ “ آپ نے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا وعلیکم السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ“ پھر ایک اور صاحب آئے انھوں نے اپنے سلام ہی میں تینوں کلمے بڑھا کر کہا ”السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ آپ نے جواب میں صرف ایک کلمہ ”وعلیک“ ارشاد فرمایا: ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان، پہلے جو حضرات آئے آپ نے ان کے جواب میں دعاء کے کئی کلمات ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا تو آپ نے ”وعلیک“ پر اکتفاء فرمایا، آپ نے فرمایا کہ تم نے ہمارے لیے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے، تم نے سارے کلمات اپنے سلام ہی میں جمع کردیے، اس لیے ہم نے تمہارے سلام کا جواب قرآنی تعلیم کے مطابق جواب بالمثل دینے پر اکتفاء کرلیا، اس روایت کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیاہے۔ (معارف القرآن۲/۵۰۳)
(۵) عزیز، دوست، چھوٹے، بڑے، جانے پہچانے اور انجانے سب کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
(۶) چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
(۷) سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔(بخاری۲/۹۲۱)
(۸) پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
(۹) چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
(۱۰) اپنے محارم کو سلام کرے۔ (ترمذی۲/۹۹)
(۱۱) جب گھر یا مسجد میں داخل ہو، وہاں اس کے علاوہ کوئی نہ ہوتو ان الفاظ سے سلام کرے، السلامُ علینا وعلی عبادِ اللّٰہ الصالحین(ہندیہ۵/۳۲۶)
(۱۲) اگر کوئی غائب شخص سلام پہنچائے تو اس طرح جواب دے، وعلیک وعلیہ السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ (ترمذی۲/۹۹)
(۱۳) اگر ایک شخص ایک جماعت کو سلام کرے تو جماعت میں سے ایک شخص کا جواب دینا کافی ہے، تمام حاضرین کا جواب دینا افضل ہے۔ (ابوداؤد۲/۷۰۸)
(۱۴) اگر سلام کرنے والی ایک جماعت ہوتو صرف ایک آدمی کا سلام کرنا کافی ہے؛ البتہ تمام کا سلام کرنا افضل ہے۔ (الاذکار النوویة:۱۹۶)
(۱۵) اگر مسلم اور غیرمسلم کا مخلوط مجمع ہوتو مسلمان کی نیت سے سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۴)
(۱۶) جب کسی کی ملاقات سے فارغ ہوکر رخصت ہونے لگے تو سلام وداع کرے، یہ بھی سنت ہے۔ (ترمذی۲/۱۰۰)
(۱۷) جب کسی کے پاس کوئی تحریر لکھے تو السلام علیکم سے کلام کا آغاز کرے۔ (بخاری۲/۹۲۶)
(۱۸) اگر مسلمان دو ہو یا بہرا ہوتو ہاتھ سے اشارہ بھی کرے اور زبان سے لفظ سلام بھی کہے، صرف اشارہ پر اکتفاء نہ کرے۔ (الاذکارالنوویة:۱۹۶)
(۱۹) سلام یا جوابِ سلام میں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ پر مزید کلمات کا اضافہ کرنا خلافِ سنت ہے۔ (معارف القرآن۲/۵۰۴)
(۲۰) اگر کسی غیرمسلم کے پاس خط لکھے تو ”السلام علی من اتبع الہدی“ تحریر کرے۔ (بخاری۲/۹۲۴)
کن لوگوں کو سلام کرنا مکروہ ہے؟
(۱) بے ایمان کو سلام کرنا مکروہ تحریمی ے، اگر وہ ابتداءً سلام کرے تو ”علیک“ پر اکتفاء کرے۔ (مرقات۸/۴۲۰)
(۲) زندیق کو سلام کرنا (شامی۲/۳۷۷، مفسدات الصلوٰة)
(۳) جو شخص برسرعام گناہ اور فسق میں مبتلا ہو اس شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے۔(بخاری۲/۹۲۵)
(۴) جوان اجنبی عورتوں اور اجنبی مردوں کو سلام کرنا مکروہ ہے،اگر اجنبی نہایت بوڑھا یا بوڑھی ہوتو سلام کرنا جائز ہے۔ (ہندیہ۵/۳۲۶)
(۵) بدعتی کو سلام کرنا۔ (مرقات ۸/۴۲۰)
نوٹ: بے ایمان کو کسی ضرورت کی وجہ سے سلام کرنا یعنی معاشرتی الفاظ استعمال کرنا مثلاًصبح بخیر، آداب وغیرہ جائزہے، مذہبی الفاظ ”نمستے“ کہنا جائز نہیں۔ (الاذکار النوویة:۲۰۲، فتاویٰ رحیمیہ ۶/۲۵۶)
مندرجہ ذیل مواقع میں سلام نہ کرے:
(۱) نمازپڑھنے والے (۲) تلاوت کرنے والے (۳) دینی باتوں (حدیث، فقہ وغیرہ) کے بیان کرنے والے (۴) ذکر کرنے والے (۵) اذان دینے والے (۶) اقامت کہنے والے (۷) جمعہ اور عیدین وغیرہ خطبات دینے والوں کو دینی امور میں مصروف ہونے کی وجہ سے سلام کرنا مکروہ ہے۔
(۸) اذان، اقامت اور خطبات کے دوران سلام کرنا مکروہ ہے، اگر کوئی ان مواقع میں سلام کرے تو جواب کا مستحق نہیں۔ (شامی ۲/۳۷۵)
(۹) کھانے والے کو سلام کرنا۔
(۱۰) قضاء حاجت میں مشغول آدمی کو سلام کرنا۔
(۱۱) جماع میں مشغول آدمی کو سلام کرنا۔
(۱۲) جس آدمی کا ستر کھلا ہوا ہو اس کو سلام کرنا بھی مکروہ ہے؛ اس لیے کہ موجودہ صورت حال میں جواب دینے کی حالت میں نہیں ہیں۔ (شامی ۲/۳۷۵)
مندرجہ بالا صورتوں میں سلام کا جواب دینا واجب نہیں؛ البتہ بعض صورتوں میں عمل موقوف کرکے جواب دے سکتا ہے، بعض صورتوں میں جواب کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔

بچوں کی تربیت میں والدین کی ذمہ داریاں



بچوں کی تربیت میں والدین کی ذمہ داریاں
جیسے شریعت نے والدین کے کچھ حقوق مقرر کئے ہیں کہ جن کا خیال رکھنا اور پورا کرنا اولاد پر واجب ہے،ویسے ہی اولاد کے کے لئے کچھ حقوق بیان فرمائے ہیں جن کا اہتمام والدین پر فرض ہے اور ان میں کوتاہی یا سستی دراصل اولاد کے ساتھ خیانت کے زمرے میں آتی ہے۔ والدین چونکہ اولاد کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ اس لئے بچوں کے حقوق کا تحفظ ہر لحاظ سے کرنا ہوگا ورنہ ناقص تربیت اور لاپرواہی کی پاداش میں جہاں نئی نسل کا مستقبل تباہ و برباد ہوگا وہاں والدین پروردگار عالم کے حضور ایک مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے اور اس کی گرفت سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ ہمارے ہاں عام طور پر بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی نگہداشت میں جن کوتاہیوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ان میں سے بعض کا ذکر ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
بے جا سختی
بعض والدین اپنے بچوں پر بے جا سختی کرتے ہیں اور ان کو معمولی بات پر بھی سخت سزا یا شدید ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے تمام جذبات و احساسات مرجاتے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں دم توڑ جاتی ہیں اور گھر کو جیل خانہ تصور کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسے بچے والدین سے نفرت کرتے ہیں اور ان سے دور رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ بعض والدین تو اس قدر سخت مزاج ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ چند سال قبل سعودی عرب کے ایک عربی روزنامہ میں ایسے ہی والد کا ظالمانہ رویہ پڑھنے کو ملا۔ کسی سعودی نے نئی لینڈ کروزر خریدی، چند دنوں کے بعد اپنی فیملی کو پکنک پر لے گیا۔ اس دوران اس کے سب سے چھوٹے بچے نے جس کی عمر بمشکل ساڑھے تین یا چار سال تھی، گاڑی کی سیٹ کو چھری سے پھاڑ ڈالا۔ باپ یہ دیکھ کر آگ بگولا ہوگیا اور بچے کو شدید مارا۔ پکنک کا پروگرام ختم کیا اور گھر آکر بچے کو چھت والے پنکھے کے ساتھ لٹکا دیا۔ اتنی سخت سزا دینے کے بعد بھی اس کا غصہ ختم نہیں ہوا اور اس نے کئی گھنٹوں تک بچے کو اسی حالت میں رکھا۔ ماں بے چاری منت سماجت کرتی رہی مگر اس بدبخت نے ایک نہ سنی۔ جب اس نے بچے کو اتارا و اس کے دونوں بازو کام کرنا چھوڑ چکے تھے۔ بچے کو اسپتال لایاگیا۔ ڈاکٹر نے کہا بچے کے دونوں ہاتھ شل ہوچکے ہیں اور انہیں کاٹنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ عین اس وقت جب آپریشن تھیٹر میں بچے کا آپریشن ہورہا تھا۔ باپ اسی پنکھے کے ساتھ رسی باندھ کر جھول گیا اور یوں ہنستا بستا گھر ماتم کدہ میں تبدیل ہوگیا۔
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے جو بڑوں کی عزت نہ کرے، چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں۔

بچوں کو مناسب وقت نہ دینا
آج کل اکثر والدین نے مادیت پرستی کو اس قدر اپنے دل و دماغ پر سوار کررکھا ہے کہ ان کے پاس اپنی اولاد کے لئے بھی وقت نہیں ہے اور دن رات اسی فکر میں سرگرداں ہیں کہ کس طرح دنیاوی اسباب ووسائل کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر کیا جائے۔ ایسے والدین کے بچے احساس محرومی کے بوجھ تلے دفن ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو تپے ہوئے صحرا میں محسوس کرتے ہیں، جہاں دور دور تک کہیں سایہ نظر نہیں آتا۔ دنیا کمانا اور روزی کے اسباب اختیار کرنا ہر انسان کے لئے ضروری ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنی ذمہ داریوںکو بھی پس پشت ڈال دے۔ بقول شاعر
ہوئے اس قدر مہذب کہ
کبھی منہ نہ دیکھا گھر کاکٹی عمر ہوٹلوں میں، مرے اسپتال جاکر
اولاد میں فرق
بعض والدین اپنی اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کا اہتمام نہیں کرتے۔ وہ بڑے بچے کو چھوٹوں پر یا لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ جس بچے کے ساتھ زیادہ شفقت اور پیار کا رویہ رکھا جائے اور دوسروں کی حق تلفی کرکے اسے اہمیت دی جائے گی وہ ضدی، ہٹ دھرم اور خودسر بن جائے گا جبکہ بقیہ بچے احساس کمتری کاشکار ہوکر والدین کے خلاف سوچنے پر مجبور ہوں گے۔ کتب حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے۔ ایک آدمی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا کہ میں نے اپنے (بڑے) بچے کو ایک غلام تحفہ میں دیا ہے۔ آپ اس کے گواہ بن جائیں۔ آپﷺ نے فرمایا کیا تیرے اور بھی بچے ہیں۔ اس نے عرض کی جی ہاں، آپﷺ نے فرمایا، کیا تونے ان کو بھی اسی طرح کا تحفہ دیا ہے؟ عرض کرنے لگا نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا، کیا تو چاہتا ہے کہ وہ سب تیری خدمت یکساں انداز میں کریں؟ عرض کرنے لگا جی ہاں، فرمایا پھر ان کو بھی ہدیہ دو اور ایسا نہ کرو اور فرمایا کیا تو مجھے ظلم وجور پر گواہ بنانا چاہتا ہے؟
حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ اب تو خدا کے فضل و کرم سے ایسا لٹریچر دستیاب ہے جو خالص کتاب و سنت پر مبنی ہے اور تعصب مذہبی سے کوسوں دور ہے۔ مثلا سیرت کی کتاب ضیاء النبی، تبیان القرآن، حدیث کی مترجم کتب، فقہ، اوصل فقہ الغرض ہر موضوع پر بہتر سے بہترین کتب اسلامی دستیاب ہیں۔
بچوں کے زیر استعمال اور زیر مطالعہ چیزوں سے بے خبر ہونا
بعض والدین کبھی بھی اس بات کی طرف توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان کے بچے کون سی کتب پڑھ رہے ہیں۔ کس قسم کا لٹریچر ان کے زیر مطالعہ ہے۔ وہ کون سی چیزیں اپنے استعمال میں رکھتے ہیں۔ کن آلات اور کن چیزوں سے کھیلتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں کیا ہیں؟ ان کی سوچ کے دھارے کس سمت بہہ رہے ہیں۔ ایسے والدین اپنی ذمہ داری کو پس پشت ڈالنے والے ہیں اور امانت میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
بڑوں سے بدتمیزی پر خوش ہونا
بعض والدین اس قدر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اگر ان کا چھوٹا بچہ بڑوں کے ساتھ بدتمیزی، اونچی آواز یا ان سے بداخلاقی سے پیش آئے تو وہ بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کا بچہ انتہائی جرأت مند ہے اور بڑوں سے بات میں جھجک محسوس نہیں کرتا۔ یہ درحقیقت بہت بڑی غلطی ہے۔ بڑوں کی عزت کرنا اور ان سے شرم کرنا اچھی چیز ہے۔ حدیث شریف میں ایک واقعہ کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ایک نوجوان اپنے چھوٹے بھائی کو بعض باتوں میں شرمانے اور حیاء کرنے پر ملامت کررہا تھا کہ آپﷺ نے فرمایا
’’اس کو چھوڑ دو، حیاء ایمان کا حصہ ہے‘‘
بچوں کو نوکروں اور خادماؤں کے سپرد کردینا
بعض والدین اپنے بچوں کو نوکروں، خادمائوں اور ڈرائیوروں کے سپرد کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ براں ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ ان لوگوں کا تعاون حاصل کرنا بعض دفعہ مجبوری ہوسکتا ہے مگر بچوں کو اپنی محبت سے محروم کردینا عقلمندی نہیں۔ جو حقیقی پیار، محبت، مودت، عاطفیت اور شفقت ماں باپ کی آغوش میں اولاد کو مل سکتی ہے، وہ پرائے ہاتھوں میں کہاں ہے؟ والدین کو چاہئے کہ بچوں کا خود خیال رکھیں اور مجبوری کے وقت نوکروں اور خادماؤں سے مدد لیں۔
بچوں کے سامنے استاد کو برا بھلا کہنا
’’مار نہیں پیار‘‘ کا زہریلا بورڈ تو سرکاری اسکولوں کی عمارتوں پر آویزاں ہے ہی مگر بعض والدین استاد کی ڈانٹ ڈپٹ کے ردعمل میں بچوں کے سامنے ہی استاد کو برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں۔ اس سے جہاں استاد کا وقار مجروح ہوتا ہے وہیں بچوں کے دل سے استاد کا خوف اور اس کا احترام ختم ہوجاتا ہے۔ اگر استاد نے کہیں پر بے جا سختی سے کام لیا ہو تو اسے الگ بیٹھ کر سمجھائیں اور اس سے تنہائی میں تبادلہ خیال کریں۔ بچوں کے سامنے ایسا ہرگز نہ کریں۔
بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑا
بعض والدین بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑے کے نقصانات کو پس پشت ڈال کر چھوٹی چھوٹی بات پر انحصار شروع کردیتے ہیں، والدین کی لڑائی اور کثرت نزاع بچوں کے سامنے ایک دوسرے کی توہین اور ایک دوسرے کے ساتھ سخت جملوں کا تبادلہ کرتے ہیں تو بچے پریشان اور فرار ہوجاتے ہیں۔ اگر والدین بچوں کے سامنے مسلسل لڑتے ہیں اور آئے روز ایک دوسرے سے کشیدگی پیدا کرتے ہیںتو بچے بھی چڑچڑے اور بداخلاق بن جاتے ہیں۔
جدت پسندی
آج کل ترقی، روشن خیالی اور جدت کے نام پر جو زہر نئی نسل کے ذہنوں میں اتارا جارہا ہے، اس کے خوفناک نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے تیار نہیں۔ آج اگر بچوں سے یہ سوال کیا جائے کہ اداکاروں، کھلاڑیوں، فن کاروں کے نام بتائیں تو جھٹ سے ایک لمبی فہرست تیار کردیں گے۔ ایک دفعہ دوران سفر ڈرائیور نے بس میں لگا ویڈیو آن کیا۔ ابھی انڈین فلم کا ٹریلر پردہ اسکرین پر ظاہر ہی ہوا تھا، پچھلی سیٹ پر بیٹھا والد اپنے ساڑھے تین سالہ بچے سے پوچھتا ہے کہ بیٹا جلدی سے بتائو کون سی فلم ہے؟ بچے نے جھٹ سے بتادیا۔ اس باپ کی زبان سے نکلا ’’شاباش‘ اور میں سوچ رہا تھا کہ ہم کیسے مسلمان ہیں؟
ایک حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق ایک عورت اپنے چار محرم رشتہ داروں کو اس لئے جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گی کہ وہ مالک کائنات سے کہے گی کہ یہ دنیا داری کے معاملات میں مجھے ڈانٹتے اور غصے کا اظہار کرتے تھے مگر دینی امور سے اعراض پر کبھی بھی انہوں نے مجھے سرزنش نہیں کی اور وہ چار لوگ باپ، بیٹا، خاوند اور بھائی ہیں۔
بچوں کے سامنے غیر شرعی افعال کرنا
بعض والدین بچوں کے سامنے غیر شرعی افعال کا ارتکاب کرتے ہیں مثلا تمباکو نوشی، فلم بینی، سماع موسیقی اور گالی گلوچ اور اس کے باوجود بچوں کو ایسی باتوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں یہ تو ایسے ہی ہے کہ آپ اپنے بچوں کو کنویں میں دھکا دیں اور کہیں بیٹا دھیان رکھنا کہیں تمہارے کپڑے گیلے نہ ہوجائیں۔
نماز کی پابندی نہ کروانا
ایک حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے نماز کی ترغیب دی جائے اور جب دس سال کا ہوجائے تو اگر پھر بھی نماز کا عادی نہ بنے تو اس پر سختی کی جائے اور یعنی اس کے والدین کو چاہئے کہ وہ اسے سختی کے ساتھ نماز کا پابند بنائیں کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔
الغرض بچے مالک کائنات کی انتہائی خوبصورت اور بہترین نعمت ہیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ یہ بات تو ان سے پوچھی جائے جن کو اﷲ تعالیٰ نے اس نعمت عظمیٰ سے محروم رکھا ہے۔ اس نعمت کی قدر کرنا اور ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنا والدین کا فرض ہے۔
تمام والدین کو آپﷺ کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہئے
’’تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے جس سے اس کے ماتحت افراد کے متعلق سوال کیاجائے گا۔ بادشاہ اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے۔ اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ آدمی اپنے گھر کا ذمہ دار ہے۔ اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے اس سے سوال ہوگا اور خادم اپنے مالک کے مال و دولت کا ذمہ دار ہے اس سے اس کے متعلق سوال ہوگا‘‘ (بخاری شریف)
پروردگار عالم نے ارشاد فرمایا
’’اے ایمان والو! اپنے آپ اور اپنے اہل عیال کو جہنم کی آگ سے بچائو۔ وہ آگ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔ اس پر بڑے سخت فرشتے مقرر ہیں۔ وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘ (التحریم: 6)
یاد رہے اولاد کی صحیح تربیت والدین کے لئے صدقہ جاریہ اورذخیرہ آخرت ہے۔
Skype id Ubaid322
Mobil No +92-322-2984599

امیر ا لمؤ منین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی سیرت و نظام حکومت










امیر ا لمؤ منین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی سیرت و نظام حکومت 
خلافت راشدہ کے دوسر ے تاجدار اسالامی تاریخ کی اولوالعزم، عبقری شخصیت ،خُسر رسول ۖ داماد علی المرتضیٰ ، رسالت کے انتہائی قریبی رفیق ، خلافت اسلامیہ کے تاجدار ثانی جن کا مشہور قول ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا اس قدر خوف خدا رکھنے والا راتوں کو جاگ کر رعایا کی خدمت اور جس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی تائید میں سورئہ نور کی آیات مبارکہ کا نازل ہونا جس نے اپنی آمد پر مدینہ کی گلیوں میں اعلان کیا ۔کوئی ہے جس نے بچوں کو یتیم کرانا ہو ، بیوی کو بیوہ کرانا ہو ، ماں باپ کی کمر جھکانا ہو ، آنکھوں کا نورگُم کرانا ہو ،آئے عمر نے محمد رسول اللہ ۖ کی غلامی کا دعویٰ کر لیا ہے آج سے اعلانیہ اذان اور نماز ہوا کرے گی ۔ یہ وہ خلیفہ ثانی ہیں جنہیں اپنی مرضی سے نہ بولنے والے پیغمبر خداۖ نے غلاف کعبہ پکڑ کر دُعا مانگی تھی اے اللہ مجھے عمر بن خطاب عطا فرما دے یا عمرو بن ہشام ۔دعائے رسول کے بعد عمر بن خطاب تلوار گردن میں لٹکائے ہاتھ بندھے سیدھے دروازہ رسول ۖ پر پہنچے صحابہ کرام نے جب یہ آنے کی کیفیت دیکھی تو بارگاہ رسالت میں دست بستہ عرض کی یا رسول اللہ ۖ عمر اس حالت میں آ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا انہیں آنے دو ۔نیّت اچھی تو بہتر ورنہ اسی تلوار سے اس کا سر قلم کردیا جائے گا جب بارگاہ رسالت میں عمر بن خطاب حاضر ہوئے دست رسول ۖ پر بیعت کر کے کلمہ طیبہ پڑھا تو فلک شگاف نعروں سے نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہوئیں تو ہر طرف بخِِ بخِِ کی صدائیں گونجیں جس عمر بن خطاب کے آنے پر اتنی خوشیاں منائی گئیں جس کے رُعب اور دب دبہ سے دشمنان اسلام اس قدر حواس باختہ ہوتے تھے کہ بے شک یہ مرد قلندر کھلے آسمان تلے تن تنہا تلوار اور کوڑا لٹکا کر آرام کر رہا ہوتا تھا مگر کسی کو یہ جرأ ت نہ ہوتی تھی کہ عمر بن خطاب کا کوڑا یا تلوار اُٹھاتا
حضرت عمرفاروق رضى الله عنه کے کسی ساتھی نے ان کی حکم عدولی نہیں کی وہ ایسے عظیم مدبرومنتظم تھے کہ عین میدان جنگ میں اسلام کے مایہ ناز کمانڈرسیدناخالد بن ولید کومعزول کردیا اورکسی کو یہ حکم ٹالنے اور بغاوت کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔
حضرت عمرفاروق رضى الله عنه نے جن علاقوں کوفتح کیا وہاں آج بھی سیدنا عمرفاروق کا نظریہ موجود ہے ،دن رات کے پانچ اوقات میں مسجد کے میناروں سے اس نظریے کا اعلان ہوتا ہے ۔ عمرفاروق رضى الله عنه نے دنیا کوایسے سسٹم دئیے جو آج تک دنیا میں موجود ہے ۔
آپ کے عہد میں باجماعت نماز تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا،آپ کے دورمیں شراب نوشی کی سزا 80 کوڑے مقررہوئی ، سن ہجری کا اجراءکیا، جیل کاتصور دیا، مؤذنوں کی تنخواہیں مقررکیں،مسجدوں میں روشنی کابندوبست کروایا،باوردی پولس، فوج اورچھاؤ نیوں کاقیام عمل میں لایا گیا، آپ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواو ں اور بے آسرا لوگوں کے وظائف مقررکئے ۔ آپ نے دنیامیں پہلی بار حکمرانوں، گورنروں، سرکاری عہدے داروں کے اثاثے ڈکلیر کرنے کا تصور دیا ۔ آپ جب کسی کو سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تواس کے اثاثوں کا تخمینہ لگواکر اپنے پاس رکھ لیتے اوراگرعرصہ امارت کے دوران عہدہ دار کے اثاثوں میں اضافہ ہوتا تواس کی تحقیق کرتے ۔ جب آپ کسی کوگورنر بناتے تو اس کونصیحت کرتے کہ ترکی گھوڑے پرمت بیٹھنا ، باریک کپڑا مت پہننا،چھناہواآٹاا مت کھانا، دروازے پر دربان مت رکھنا ۔
آپ کی مہر پر لکھا ہوا تھا : ”عمر !نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے “۔
یہ وہ سسٹم ہے جس کو دنیا میں کوئی دوسرا شخص متعارف نہ کروا سکا، دنیا کے 245ممالک میں یہ نظام کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے ۔ان حقائق کی روشنی میں زبان وقلم بے اختیار گواہی دیتا ہے کہ دنیا کا سکندر اعظم عمرفاروق رضى الله عنه ہیں۔
آپ کے عدل کی مثال دنیا کے کسی دوسرے حکمراں میں نہیں ملتی ، آپ کے عدل کی یہ حالت تھی کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دوردراز علاقہ کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اورچینخ کربولا: لوگو!حضرت عمرفاروق کا انتقال ہوگیا ہے ۔
لوگوں نے پوچھا : تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں رہتے ہو‘تمہیں کس نے خبردی ؟ چرواہا بولا: جب تک عمر فاروق رضى الله عنه زندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف چرتی پھرتی تھیں ،کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھتا تھا لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھاکر لے گیا ہے ۔ میں نے بھیڑئیے کی جرا ت سے جان لیا کہ آج عمررضى الله عنه دنیا میں نہیں ہیں ۔
مدینہ کے بازارمیں گشت کے دوران ایک موٹے تازے اونٹ پر نظر پڑی ، پوچھا: یہ کس کا اونٹ ہے ؟ بتایا کہ یہ آپ کے صاحبزادے عبداللہ رضى الله عنه کا ہے ۔ آپ نے گرجدار آواز میں کہا کہ عبداللہ کو فوراً میرے پاس بلاؤ، جب سیدناعبداللہ رضى الله عنه آئے توپوچھا: عبداللہ! یہ اونٹ تمہارے ہاتھ کیسےآیا؟ عرض کیا : اباجان !یہ اونٹ بڑا کمزورتھا اورمیں نے اس کو سستے داموں خرید کرچراگاہ میں بھیج دیا تاکہ یہ موٹا تازہ ہوجائے اور میں اس کو بیچ کر نفع حاصل کروں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: تمہاراخیال ہوگا کہ لوگ اس کو چراگاہ میں دیکھ کر کہیں گے : یہ امیر المومنین کے بیٹے کا اونٹ ہے، اسے خوب چرنے دو، اس کو پانی پلاو ، اس کی خدمت کرو۔ سنو! اس کو بیچ کر اصل رقم لے لو اور منافع بیت المال میں جمع کرادو۔ سیدنا عبداللہ رضى الله عنه نے سرتسلیم خم کردیا ۔
امیرالمو منین سیدنا عمر فاروق رضى الله عنه کے دربار میں ایک نوجوان روتے ہوئے داخل ہوا ۔ آپ نے رونے کی وجہ پوچھی :اس نے روتے روتے عرض کیا کہ میں مصر سے آیا ہوں، وہاں کے گورنر کے بیٹے سے دوڑ کے مقابلے میں جیت گیا تو محمد بن عمروبن عاص رضى الله عنه نے میری کمر پر کوڑے برسائے جس سے میری کمر چھلنی ہوگئی ۔ وہ کوڑے مارتا رہا اور کہتا رہا کہ تمہاری یہ جرأت کہ سرداروں کی اولاد سے آگے بڑھو۔ آپ نے یہ داستان سننے کے بعد مصر کے گورنر اور ان کے بیٹے کو بلابھیجا، جب وہ آگئے توکہا: یہ ہیں سردار کے بیٹے ، پھرمصری کو کوڑا دیا اور کہا کہ اس کی پیٹھ پرزورسے کوڑے ماروتاکہ اس کو پتہ چلے کہ سرداروں کے بیٹوں کی بے اعتدالیوں پر ان کا کیا حشر ہوتا ہے ۔ اس نوجوان نے جی بھر کر بدلہ لیا ۔ پھر آپ نے فاتح مصرسیدناعمروبن عاصؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
” اے عمرو! تونے لوگوں کو کب سے غلام بنایا ہے جبکہ ان کی ماو ں نے ان کو آزاد جنم دیا ہے ۔“
یہ ہے وہ بے لاگ عدل جس میں قوموں کی عزت اورترقی کا راز پنہاں ہے ۔
آج اسلام پر شبخون مارنے والے یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار اسلام ہے ، جبکہ اسلام امن وامان کا داعی ہے، عدل ومساوات کاپیکر ہے اورعروج وترقی اس کی خمیر میں داخل ہے جس پر تاریخی حقائق گواہ ہیں۔ آج اسلام غریب الدیار ہے ،آج اسلام کو عمرکی ضرورت ہے ،اسلام کے غلبہ کے لیے کردار کی اعلی مثالیں درکار ہیں ،آج مسلمان اپنے نفس کے غلام بن کر رہ گئے ہیں اوراپنے رب کو بھول گئے ہیں ،نجات کا واحد راستہ نفس کی غلامی سے نکل کر رب العزت کی رضا مطلوب ومقصود ہے : وَلِلَّہِ العِزَّةُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلمُومِنِینَ (المنافقون 8) ”سنو! عزت توصرف اللہ تعالی اوراس کے رسول اورایمان والوںکے لیے ہے .
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو 28 ذوالحج کو ایک مجوسی غلام فیروز نے نمازفجر کے دوران خنجر کے چھ سات واروںح سے زخمی کر دیا اور ان زخموں کی وجہ سے یکم محرم الحرام کو آپ جام شہادت نوش کر گئے ان کی نماز جنازہ 
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے پڑھائی